سرینگر: سرینگر میں ان دنوں جہاں قومی سطح کا یہ کتابی میلہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا یے۔۔ وہیں یہاں آرہے لوگ کشمیر کی شاندار روایات اور قدیم تہذیب و تمدن کی بھولی یادیں بھی تازہ کر کے جاتے ہیں۔
کشمیری ایک پرانی بزرگ خاتوں کا روپ دھارتے ہوئے ایک طالبہ نے کہا کہ اس رول کو ادا کرنے سے قبل اگرچہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ خواتین کا پرانا پہناوا کیسا ہوا کرتا تھا تاہم اساتذہ نے نہ صرف ہمیں پرانے دور کے خواتین کے پہناوے کے بارے میں بلکہ اپنی قدیم تہذیب سے متعلق بھی کافی جانکاری فراہم کی۔
یہاں پر آپ کو کشمیری کنز، چولہ یعنی کشمیر دان، مٹی کے برتن، الگ الگ قسم کے زیوارت، گھاس سے بنی چٹائی یعنی کشمیری پتج اور پلہور، دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ وہیں اس دور میں استعمال میں ہونے والے مخصوص ملبوسات کے علاوہ وہ تختیاں اور خاص قسم کے قلم بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جو کہ اسکولوں میں بچے پڑھنے لکھنے کی خاطر ماضی میں استعمال میں لائے جاتے تھے ۔
یہ بچے کولگام ضلع کے گورنمنٹ مڈل اسکول کے طالب علم ہیں جو کہ اس خاص کلچرل پروگرم کا حصہ بنے ہیں۔ استاد ریاض الحسین کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے اس موجودہ دور میں لوگ اپنے ماضی، قدیم ثقافت اور روایات کو بھول چکے ہیں ایسے میں ہم اس ایکٹ کے ذریعے لوگوں کو اپنے ماضی کی یاد دلانا چاہتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ اس طرح کا پروگرام پیش کرنے کے لیے نہ صرف استادوں بلکہ بچوں کی بھی کافی محنت کار فرما ہیں وہیں بچوں کو تیار کرنے اور درکار چیزیں اکھٹا کرنے میں ہمیں تقریباً 6 ماہ کا عرصہ لگا۔
کشمیر کا ماضی شاندار رہا ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں لوگ اپنے ماضی کو بھول رہے ہیں ایسے میں کشمیر کی قدیم تہذیب و تمدن اور ورثے کو نئی نسل تک پہنچانا بھی ضروری تاکہ وہ بھی اپنے تاریخ سے آشنا ہوجائے۔