اننت ناگ (جموں کشمیر) : ساہتیہ اکادمی نئی دہلی کی جانب سے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ڈگری کالج بائز کھنہ بل میں معروف ادیب، قلم کار، شاعر اور اداکار بشیر دادا کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ ’’بشیر دادا کے ساتھ ایک ملاقات‘‘ کے عنوان سے منعقد کی گئی اس تقریب میں پروفیسر محمد رمضان شاد، ریاض مسرور، وحید جیلانی سمیت وادی سے تعلق رکھنے والے کئی ادیبوں۔ براڈکاسٹرز، شعراء اور ساہتیہ اکیڈمی کے ممبران و طلباء نے شرکت کی۔
اس موقع پر مقررین نے اردو اور کشمیری زبان و ادب کے تئیں بشیر دادا کی خدمات پر روشنی ڈالی اور بشیر دادا کی حوصلہ افزائی کی۔ مقررین نے نے کہا کہ بشیر دادا وادی کشمیر کے ایک ایسے فنکار ہیں جن کی آواز، جن کی شاعری کشمیر کے ہر گھر میں دہائیوں سے گونج رہی ہے۔ آج بھی جب ان کے تحریر کردہ نغمے گونجتے ہیں تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہیں۔ مقررین نے کہا: ’’بشیر دادا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ایک اعلیٰ پایہ کے اداکار، ہدایت کار، ڈرامہ نویس اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر مراز کمراز اکیڈمی کے روح رواں بھی ہیں۔ وہ کشمیر کے نو آموز شعراء و ادباء کی سرپرستی کر رہے ہیں اور نو عمر قلمکاروں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ دادا نے اپنے فکر و فن سے ہزاروں لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ انہوں نے کشمیری اردو زبان و ادب کو ایسی نادر تخلیقات سے نوازا ہے کبھی جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
تقریب کے دوران شرکاء حضرات نے بشیر دادا سے سوالات پوچھے، جن کا انہوں نے شاعرانہ انداز میں جواب دے کر حاضرین کو محظوظ کیا۔ بشیر دادا نے اس موقع پر اپنی پیشہ وارانہ خدمات کے دوران رونما ہونے والے مشکلات کے بارے میں بھی ذکر کیا جسے حاضرین نے غور سے سنا۔ اس موقع پر چند نو عمر شعراء نے بشیر دادا کے لکھے ہوئے معروف نغمے بھی گائے۔
تقریب کے حاشیہ پر ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو کے دوران بشیر دادا نے اس اعزاز پر منتظمین کی ستائش کی تاہم انہوں نے کہا: ’’یہ اعزاز عمر پیر میں دیا گیا، جوانی میں ہوتا تو کچھ اور ہی بات تھی جس دور میں نہ صرف مجھے بلکہ اہل و عیال کو بھی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔‘‘ انہوں نے مستقبل میں بھی اپنی بے باک آواز اور ’’سچ بولنے‘‘ کی سعی کو برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: "بشیر دادا" سے خصوصی گفتگو