سرینگر (جموں کشمیر) : میرواعظ کشمیر مولوی محمد فاروق نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پر گہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہ ’’اس بل پر بھارت کے دیگر خطوں کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی علاقہ جموں کشمیر کے مسلمان بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ ‘‘ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ کے موقع پر میرواعظ نے کہا: ’’حکومت ہند نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے اور وقف اداروں کو چلانے اور ان کو منظم کرنے کے طریقہ کار میں زبردست تبدیلیاں لانے کی کوشش کی جا رہیہے، جس سے ہندوستان اور فطری طور پر مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو شدید پریشانی اور تشویش ہے۔ ہماری زیادہ تر مساجد، مزارات اور خانقاہیں وقف بورڈ کے تحت آتی ہیں۔ بورڈ کی تشکیل میں تبدیلی سمیت ترمیمی بل میں کئی متنازعہ شقیں تجویز کی گئی ہیں۔‘‘
میرواعظ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب غیر مسلموں کو بھی وقف بورڈ کا حصہ بنایا جائے گا اور غیر مسلم کو بورڈ کا سی ای او بھی بنایا جا سکتا ہے جو کہ مذہبی معاملات میں براہ راست مداخلت ہے۔ میرواعظ نے کہا کہ مجوزہ بل میں کسی کو اپنی جائیداد کا وقف کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال تک مسلمان ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے جو ’’مضحکہ خیز‘‘ ہے۔
مولوی عمر فاروق نے کہا کہ ’’ہماری بیشتر مساجد، درگاہیں، خانقاہیں اور امام باڑے وقف بورڈ کے تحت آتے ہیں اور بہت سی وقف مساجد سینکڑوں سال پرانی ہیں اور بعض ادارں کے پاس جائیداد کو ثابت کرنے کیلئے ضروری دستاویز بھی نہیں ہیں تو کیا ان سب کو سرکاری املاک تصور کیا جائے گا؟‘‘ میرواعظ نے مرکزی سرکار کی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل حکومت اس طرح کے قوانین سے وقف کے بنیادی مقاصد کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ وقف اراضی کی حتمی حیثیت کے حوالے سے اس بل میں ضلع کلیکٹر یعنی ڈی سی کو اختیارات حاصل ہوں گے اور وہیں اس بات کا مجاز ہوگا کہ یہ زمین سرکاری ہے یا وقف جائیداد ہے۔ میرواعظ کے مطابق ’’اصل میں بدقسمتی سے اس طرح کے قوانین سے حکومت کا ایجنڈا مسلمانوں کو کمزور کرنا، طاقت سے محروم کرنا اور انہیں اپنے انتخابی مقاصد کیلئے پولرائزنگ ایجنٹ کے طور پر استعمال کرنا ہے۔‘‘
میرواعظ نے اس بل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بحیثیت مسلمان ہمیں حکومت ہندوستان کی جانب سے کئے جا رہے اقداما ت سے چوکنا رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے قومی اور ملی مفادات کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کیلئے حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور اگر حکومت ہندوستان ان امتیازی قوانین کو پاس کرتی ہے تو جموں وکشمیر کے مسلمان اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فارق تاریخی جامع مسجد سرینگر کے خطیب بھی ہیں اور مذہبی رہنما بھی، جبکہ وہ علیحدگی پسند تنظیم کُل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی ہیں۔ ایسے میں قدیم زمانے سے میرواعظ خاندان کا تاریخی جامع مسجد سے وابستگی رہی ہے۔ عمر فاروق کو اپنے والد اور سابق میرواعظ مولوی محمد فاروق کے قتل بعد میرواعظ بنایا گیا تب سے وہ جامع مسجد میں خطبہ دیتے آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گیا: وقف کے موضوع پر علماء نے جمعہ کی نماز سے قبل خطاب کیا - Waqf property and Muslim