سرینگر (جموں کشمیر) : نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے کشمیر میں پارلیمانی انتخابات اپنے دم پر لڑنے کے بیان کے بعد ’’انڈیا الائنس‘‘ کے شرکاء - پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی (پی ڈی پی) اور کانگریس نے علیحدہ انتخابات لڑنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ عمر عبد اللہ نے کہا تھا کہ نیشنل کانفرنس کشمیر کی تینوں نشستوں - سرینگر، بارہمولہ اور اننت ناگ - راجوری پر کانگریس کے ساتھ کوئی گفتگو نہیں کرے گی، کیوں کہ یہ تینوں سیٹیں سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے جیتی ہیں، یعنی یہ سیٹیں انڈیا الائنس کے پاس ہی ہیں۔ تاہم انہوں نے پی ڈی پی کے ساتھ بات نہ کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر کانگریس اور پی ڈی پی آپس میں گفتگو کریں گے تو نیشنل کانفرنس کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اس بیان کے بعد پی ڈی پی اور کانگریس کے خیموں میں اشتعال پیدا ہوا اور یہ تاثر ظاہر کیا گیا کہ نیشنل کانفرنس الائنس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ہفتے کے روز پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سرینگر میں پارٹی لیڈران اور ضلع صدور اور دیگر زعماء کے ساتھ اجلاس منعقد کیا جس میں پارلیمانی انتخابات کے لئے امیدواروں پر گفتگو کی گئی۔
پی ڈی پی ذرائع نے بتایا کہ عمر عبداللہ کے بیان کے بعد یہ بات واضح ہوا کہ نیشنل کانفرنس پی ڈی پی کے ساتھ سیٹ شیئرنگ پر کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتی، جس کے باعث پی ڈی پی سرینگر، بارہمولہ اور اننت ناگ - راجوری پر انتخابات لڑنے کے لئے تیاریاں کرنے میں لگی ہے اور امیدواروں کے انتخاب کے لئے بھی سرگرم ہوئی ہے۔
وہیں کانگریس کے سینئر لیڈر اور ورکنگ کمیٹی کے رکن طارق حمید قرہ نے بھی سرینگر میں کارکنان کے ساتھ ایک میٹنگ طلب کی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس میٹنگ میں طارق قرہ سرینگر پارلیمانی حلقے سے انتخابات لڑنے میں سنجیدہ تھے، جس کے لئے انہوں پارٹی کے کارکنان سے بات کرنے کا بھی آغاز کیا اور الیکشن سرگرمیاں شروع کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا۔
یاد رہے کہ طارق قرہ نے سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بطور پی ڈی پی امیدوار سرینگر سے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کو شکست دی تھی۔ تاہم انہوں نے ستمبر سنہ 2016 کو بطور رکن پارلیمنٹ استعفیٰ دیا تھا۔ انکا استعفیٰ عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پر عوامی احتجاج اور پی ڈی پی کا بی جے پی کے ساتھ مخلوط سرکار برقرار رکھنے کے بعد ہوا تھا۔ طارق قرہ سرینگر کے بٹہ مالو اسمبلی حلقے سے دو مرتبہ رکن بھی رہ چکے ہیں۔
طارق قرہ کے حامیوں کے مطابق انکو بڈگام اور گاندربل اضلاع میں بھی حمایت حاصل ہے جبکہ سرینگر میں وہ کافی معروف لیڈر ہے۔ وہیں کانگریس پارٹی اور انکے اپنے کارکنان کی حمایت کے پیش نظر انکے قریبی ساتھی ان سے اصرار کر رہے ہیں کہ وہ اس سیٹ پر خود انتخاب لڑے۔ نیشنل کانفرنس، سرینگر سیٹ پر فاروق عبداللہ کو میدان میں اتارنے کے لیے تیار ہے۔ فاروق عبداللہ نے سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں یہ نشست جیتی تھی۔ نیشنل کانفرنس لیڈران کے مطابق وہ اس سیٹ پر کافی مضبوط ہے۔
مزید پڑھیں: 'این سی انڈیا الائنس کے ساتھ ہے اور رہے گی، فاروق عبداللہ کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا'
البتہ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ جب سرینگر نشست پر کانگریس، پی ڈی پی، جموں کشمیر اپنی پارٹی اور نیشنل کانفرنس کے امیدوار آمنے سامنے ہوں گے تو اس نشست پر کسی ایک امیدواروں کو اس وقت مضبوط قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح سے گزشتہ ایک ہفتے سے نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس نے علیحدہ اجلاس کے انعقاد کا آغاز کیا اور بیان بازی شروع کی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تینوں جماعتیں پانچوں پارلیمانی نشستوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔
واضح رہے کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں اور ادھمپور نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ نیشنل کانفرنس نے سرینگر، اننت ناگ اور بارہمولہ کی سیٹیں اپنے نام کی تھیں۔ پی ڈی پی اور کانگریس انتخابات میں ناکام رہی تھی۔ گزشتہ برس حدبندی کمیشن نے راجوری اور پونچھ اضلاع کو اننت ناگ میں ضم کر دیا جس سے اب اس نشست پر انتخابات لڑنا دلچسپ بن گیا ہے۔