اننت ناگ (جموں کشمیر) : راجیہ سبھا انتخابات قریب آتے ہی جموں کشمیر میں بھی سیاسی جماعتیں متحرک ہو گئی ہیں، تاہم ان انتخابات میں سب سے زیادہ توجہ اننت ناگ - راجوری پارلیمانی نشست پر مرکوز کی جا رہی ہے۔ حد بندی کے بعد اس نشست کو اہم تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ واحد ایک ایسی نشست ہے جسے، حد بندی کے بعد، جموں خطے اور وادی کشمیر کے درمیان تقسیم کیا گیا۔
حد بندی کمیشن رپورٹ سامنے آنے کے بعد سب سے زیادہ نقطہ چینی اننت ناگ راجوری نشست پر ہی کی گئی۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے اسے ووٹوں کو تقسیم کرنے اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے حق میں سیٹ نکالنے کی راہ ہموار کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے، کیونکہ راجوری پونچھ میں تقریبا 30 فیصد ہندو ووٹرز ہیں اسی لئے بی جے پی کے پاس راجوری اور پونچھ اضلاع سے ووٹوں کا ایک اچھا حصہ حاصل کرنے کا امکان ہے۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ قبائلی (پہاڑی،گوجر اور بکروال) فرقہ سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کا رجحان بھی بی جے پی کی جانب ہے، کیونکہ راجوری پونچھ میں اکثریت مذکورہ فرقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں، لہذا ہندوؤں اور مسلم قبائلی ووٹروں کو ملا کر ووٹروں کی اکثریت بی جے پی کے حق میں جانے کا امکان ہے۔ یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ انتخابات کے دوران اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے والے ووٹروں کی سب سے زیادہ شرح قبائلی ووٹروں کی رہتی ہے۔ حالیہ دنوں راجیہ سبھا میں ریزرویشن سے متعلق بل منظور ہونے کے بعد قبائلی سیاسی رہنماؤں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے، جس سے قبائلی ووٹوں کا بی جے پی کی جھولی میں جانے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔
جنوبی کشمیر کو سیکورٹی کے لحاظ سے حساس تصور کیا جاتا تھا، اسلئے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ماضی میں بھی اننت ناگ پارلیمانی نشست تذبذب کا شکار رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سنہ 2017 میں بھی اننت ناگ لوک سبھا سیٹ کے لیے ضمنی انتخابات کئی بار موخر کئے گئے تھے، اُس وقت سرینگر میں انتخابات کے دوران پرتشدد واقعات میں آٹھ افراد کی ہلاکت کے بعد الیکشن کمیشن نے جواز پیش کیا کہ اننت ناگ میں انتخابات کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں، اُن انتخابات میں سب سے کم 7.14 فیصد ووٹوں کی شرح رہی تھی۔
اننت ناگ پارلیمانی نشست، ماضی اور حال
حد بندی سے قبل پلوامہ اور شوپیاں اضلاع اننت ناگ لوک سبھا سیٹ کا حصہ تھے، جبکہ نئی حد بندی کے بعد جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے چار اسمبلی حلقے اور شوپیاں کا ایک حلقہ سرینگر سیٹ میں شامل کیا گیا، جبکہ شوپیاں، کولگام اننت ناگ کو راجوری پونچھ حلقوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ حد بندی کے بعد اننت ناگ کا شانگس حلقہ جنوبی کشمیر میں اننت ناگ مشرق اور لارنو حصوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ جبکہ جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں ہوم شالی بگ اسمبلی سیٹ کو ختم کیا گیا۔
اننت ناگ - راجوری لوک سبھا نشست جن اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہوگا ان میں زینہ پورہ، دمہال ہانجی پورہ، کولگام، دیوسر، ڈورو، لارنو، اننت ناگ ویسٹ، اننت ناگ، پہلگام، نوشہرہ، راجوری، درہال، تھنہ منڈی، سورنکوٹ، پونچھ اور مینڈھر شامل ہیں۔ جبکہ جنوبی کشمیر سے جن اسمبلی حلقوں کو الگ کرکے سرینگر کے ساتھ ملایا گیا ان میں پانپور، ترال ،پلوامہ، راجپورہ، شوپیاں شامل ہیں۔
اننت ناگ - راجوری لوک سبھا انتخابات کے لئے سرگرم علاقائی پارٹیاں آج بھی تذبذب کی شکار ہیں، کیونکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دو الگ الگ خطوں کے ووٹوں کو اکٹھا کرنا ہے، لہذا تمام سیاسی پارٹیوں نے انتخابی مہم میں تیزی لائی ہے۔ ایک طرف مین اسٹریم سیاسی جماعتیں بی جے پی کے منشور کو ناکام بنانے کے لئے اننت ناگ راجوری نشست کو حاصل کرنے میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب بی جے پی کی مرکزی توجہ اننت ناگ - راجوری پارلیمانی سیٹ پر ہے۔
مزید پڑھیں: اننت ناگ راجوری پارلیمانی سیٹ ہماری ہوگی: بی جے پی لیڈر
واضح رہے کہ سنہ 2022 میں حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر کی نئی حد بندی کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق جموں کشمیر اسمبلی کی 83 سیٹوں میں سات کا اضافہ کرکے 90 کر دیا گیا۔ جن 7 سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ان میں سے 6 جموں میں کی گئیں جس کے ساتھ ہی جموں میں سیٹوں کی تعداد 37 سے بڑھ کر 43 ہو گئی جبکہ کشمیر میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کرکے سیٹیں 46 سے بڑھا کر 47 کی گئیں۔
جموں صوبہ کی کل آبادی 44 فیصد ہے لیکن اسے سیٹوں میں 48 فیصد حصہ داری دی گئی جب کہ 56 فیصد آبادی والے کشمیر کو سیٹوں میں 55.4 فیصد سے کم کرکے صرف 52 فیصد حصہ داری دی گئی۔ حد بندی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اس وقت مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی جانب سے حد بندی کی سخت نکتہ چینی کی گئی۔ کہا گیا کہ ’’یہ جانبداری اور سیاسی مقاصد پر مبنی ہے۔ حد بندی کمیشن نے آبادی کی بنیاد کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کر دیا۔ اس کے پیچھے یہی مقصد ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو کسی طرح اختیارات سے محروم کر دیا جائے۔ سرکار نے آئین کو نظر انداز کرکے انتخابی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ ایک بار پھر ماضی کو دہرایا گیا اور کشمیر کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کیا گیا۔‘‘
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس وقت حد بندی رپورٹ کو تاریخی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ نئی حد بندی سے مساوی سیاسی نمائندگی ممکن ہوگی اور جموں کشمیر میں تمام شعبوں میں ترقی کے درواز ے کھلیں گے۔ اس وقت سیاسی مبصرین کا ماننا تھا کہ نئی حد بندی سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ کیونکہ جموں خطے میں بی جے پی کی کارکردگی بہتر رہتی ہے جو سنہ 2014 کے انتخابات سے واضح ہوا تھا، لہذا بی جے پی جموں میں واحد بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے کیونکہ کشمیر خطے میں وادی کے ووٹر مختلف سیاسی پارٹیوں کے درمیاں منقسم ہیں مزید برآں کہ جموں خطے میں جو نئی اسمبلی سیٹیں بنائی گئی ہیں وہ ہندو اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہیں جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو مل سکتا ہے۔