سرینگر (جموں و کشمیر) جموں و کشمیر میں لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ جنوبی کشمیر اور خطہ پیر پنچال کی انتخابی نشست اننت ناگ - راجوری کے لیے نیشنل کانفرنس کے امیدوار اور تجربہ کار سیاست دان میاں الطاف احمد نے کاغذات نامزدگی داخل کیے۔ میاں الطاف اس نشست کے دیگر امیدواروں میں سے ابھی تک کے سب سے زیادہ دولت مند امیدوار بن کر ابھرے ہیں۔
کئی دہائیوں پر محیط ٹریک ریکارڈ کے ساتھ 66 سالہ میاں الطاف احمد نے نہ صرف سیاسی میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے بلکہ گزشتہ برسوں میں انہوں نے کافی دولت بھی جمع کی ہے۔ گزشتہ پانچ مالی برسوں کے لیے ان کے اعلان کردہ انکم ٹیکس کی تفصیلات مسلسل ترقی کی رفتار کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے اثاثوں میں بینک کے اہم ذخائر اور موٹر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ زرعی اور غیر زرعی اراضی کا بھی امتزاج ہے۔
جنوبی کشمیر کی اننت ناگ سیٹ سے این سی کے امیدوار میاں الطاف کے اعلان کردہ اثاثوں میں گاندربل کے ونگٹھ میں زرعی اراضی، جموں کے سنجوان میں غیر زرعی اراضی اور دونوں مقامات پر رہائشی جائیدادیں شامل ہیں، جو کافی حد تک ان کی ظاہر کردہ مجموعی اثاثوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں، ان کے خاندان کا سیاسی تعلق بھی ان کے سیاسی اثر و رسوخ اور میراث کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی سیاسی میراث ان کے دادا، جو کہ ایم ایل اے رہ چکے ہیں، تک جا ملتی ہے۔
میاں الطاف نے پرچہ نامزدگی میں گزشتہ پانچ مالی برسوں میں اپنے انکم ٹیکس کے ریکارڈ کا ایک جامع بریک ڈاؤن پیش کیا ہے۔ ان کی اعلان کردہ آمدنی، 2018-2019 میں 9,18,140 روپے سے 2022-2023 میں 21,91,000 روپے تک ایک مستقل مالی حیثیت کو واضح کرتی ہے۔ مالی اثاثوں کے لحاظ سے میاں الطاف احمد کے پاس 1,50,000 روپے نقد ہیں۔ تاہم اس کی دولت کا بڑا حصہ بینک ڈپازٹس میں ہے، جس کی کل رقم 3,18,55,000 روپے ہے۔ اس کے علاوہ، اس کے پاس 11,25,000 روپے فکسڈ ڈپازٹ بھی ہیں۔ گاڑیوں کی بات کریں تو، تو میاں الطاف احمد کے پاس دو قابل ذکر موٹر گاڑیاں ہیں: ایک ماروتی جمنی، جس کی قیمت 13,00,000 روپے ہے اور ایک مہندرا اسکارپیو، جس کی قیمت 25,00,000 روپے ہے۔
تاہم، یہ این سی امیدار کے غیر منقولہ اثاثے ہیں جو واقعی اس کے مالی قد کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کی غیر منقولہ جائیداد میں وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع کے ونگٹھ (بابا نگری) میں 12.5 ایکڑ زرعی زمین شامل ہے، جس کی مالیت تقریباً 10,00,00,000 روپے ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس سنجوان (جموں) میں 10800 مربع فٹ کی غیر زرعی زمین ہے، جس کی قیمت تقریباً 1,24,00,000 روپے ہے۔ علاوہ ازیں میاں الطاف احمد دو رہائشی جائیدادوں کے بھی مالک ہیں- ایک وانگٹھ (گاندربل) اور دوسری ودھاتا نگر (جموں) میں، جن کی مجموعی مالیت 6,00,00,000 روپے بتائی گئی ہے۔ کافی دولت کے باوجود میاں الطاف احمد پر کوئی واجبات نہیں ہیں جس سے ان کے مالی استحکام کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اپنے مالی انکشافات سے ہٹ کر میاں الطاف احمد کا سیاسی سفر قابل ذکر کامیابیوں سے عبارت ہے۔ سیاست میں گہرائی سے جڑے خاندان سے تعلق رکھنے والے میاں الطاف کا سیاسی سلسلہ ان کے دادا تک جا ملتا ہے جو ریاستی اسمبلی میں رکن رہ چکے ہیں۔
میاں الطاف کی تعلیمی قابلیت
میاں الطاف احمد کشمیر یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں پانچ بار منتخب ہوئے میاں الطاف گجر، بکروال اور پہاڑی برادریوں میں کافی مقبول لیڈر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جموں و کشمیر میں جنگلات اور ماحولیات کے وزیر رہ چکے ہیں۔ دونوں وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے تحت کابینہ میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
محبوبہ مفتی کے پاس کتنی دولت ہے
اس کے برعکس، انتخابات میں ایک اور نمایاں دعویدار جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی دی پی) کی صدر، محبوبہ مفتی، نے بالکل مختلف پروفائل پیش کیا ہے۔ جموں و کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دینے کے علاوہ اپنے وسیع سیاسی تجربے کے باوجود، محبوبہ کے اعلان کردہ اثاثے میاں الطاف کے مقابلے میں کافی ہلکے ہیں۔
نامزدگی کے عمل کے ایک حصے کے طور پر جمع کرائے گئے دستاویز کے مطابق، محبوبہ مفتی، جو میاں الطاف کی طرح کشمیر یونیورسٹی سے لاء گریجویٹ ہیں، نے گزشتہ پانچ مالی برسوں کے دوران اپنی انکم ٹیکس فائلنگ کا ایک جامع بریک ڈاؤن فراہم کیا ہے۔ اعداد و شمار اس کی ٹیکس فائلنگ میں قابل ذکر اضافہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ متعلقہ مالی برسوں کے لیے اس کی آمدنی 2018-2019 کے لیے 8,63,928 روپے، 2019-2020 کے لیے 84,750 روپے، 2020-2021 کے لیے 19,98,520 روپے، 2020-2021 کے لیے 12,44,620 روپے اور 2025-2021 کے لیے روپے 2022-2023 رہی ہے۔
مالی اثاثوں کے لحاظ سے محبوبہ کے پاس 45,000 روپے نقد رقم ہے اور ان کے پاس مختلف بینک کھاتوں میں نمایاں ڈپازٹس ہیں، جو کل 23,74,904 روپے ہیں۔ مزید یکہ اس کے پاس 11,94,963 روپے کی انشورنس پالیسیاں بھی ہیں۔ گاڑیوں کے اثاثوں میں محبوبہ کے پاس ایک بس (اسوزو) ہے جس کی مالیت 5,00,000 روپے ہے۔
منقولہ اثاثوں کے علاوہ محبوبہ کے پاس غیر منقولہ اثاثے بھی ہیں، جن میں اننت ناگ کے بجبہاڑہ میں واقع ایک رہائشی مکان بھی شامل ہے، جس کی تخمینہ قیمت 35 لاکھ روپے ہے۔ اپنے اثاثوں کے باوجود محبوبہ نے کوئی واجبات کا اعلان نہیں کیا اور اپنی آمدنی کا ذریعہ پنشن/تنخواہ کے طور پر درج کیا ہے۔ ان کے مالی انکشافات کے علاوہ، محبوبہ مفتی کی سیاسی رفتار قابل ذکر ہے۔ انہوں نے 2016 میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا کردار سنبھالنے سے پہلے لوک سبھا میں دو بار اننت ناگ کی نمائندگی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی رکن کے طور پر خدمات انجام ددی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ محبوبہ مفتی اس خطے میں اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔ چیف منسٹر کے طور پر ان کا دور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کے ذریعہ نشان زد کیا گیا تھا، جس سے انہوں نے جون 2018 میں بی جے پی کی جانب سے عدم اعتماد کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ محبوبہ مفتی کا خاندانی پس منظر بھی ان کی سیاسی شخصیت میں گہرائی کا اضافہ کرتا ہے۔ وہ مرحوم مفتی محمد سعید کی دختر اور دو بیٹیوں التجا اور ارتقاء کی والدی ہیں۔
محبوبہ مفتی کو اگست 2019 میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظربند کیا گیا اور اور اکتوبر 2020 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی مداخلت کے بعد انہیں رہا گیا۔ حالیہ برسوں کے دوران متعدد سیاسی پیچیدگیوں، اتار چڑھاؤ اور بی جے پی پر برملا تنقید کے باعث محبوبہ مفتی تجربہ کار اور بے باک لیڈروں میں شمار کی جاتی ہیں۔
اننت ناگ-راجوری پارلیمانی نشست
اننت ناگ-راجوری لوک سبھا سیٹ کے لیے انتخابی میدان تیار ہے، 25 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ کلیدی دعویداروں میں پی ڈی پی سے محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس سے میاں الطاف، اپنی پارٹی سے ظفر اقبال منہاس اور ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی سے محمد سلیم پرے ہیں۔
گزشتہ روز 19اپریل کو اس نشست کے لیے نامزدگی داخل کرانے کی آخری تاریخ تھی جبکہ آج جانچ پڑتال جاری ہے اور 22 اپریل تک کاغذات نامزدگی واپس لئے جا سکتے ہیں۔ جموں و کشمیر میں انتخابی حرکیات دلکش ہونے کا قوی امکان ہے اور حد بندگی کے بعد اسمبلی و پارلیمانی نشستوں میں بھاری پھیر بدل اور دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد سیاسی منظر نامہ کافی تبدیل ہو گیا ہے اور کسی ایک امیدوار کی جیت کا گمان قبل از وقت ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: Lok Sabha Election 2024: NC's Mian Altaf Emerges As Wealthiest Candidate In Jammu And Kashmir