ETV Bharat / jammu-and-kashmir

لداخ کی قدیم ترین تساس سوما مسجد، تجارت اور تاریخ کا سنگم

لیہہ لداخ میں 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی تساس سوما مسجد وسطی ایشیائی تاجروں کے لیے بنائی گئی تھی۔

Etv Bharat
تساس سوما مسجد: لیہہ کی قدیم ترین عوامی مسجد (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 2 hours ago

رنچین انگمو

لیہہ (لداخ): یوٹی لداخ کے دارالحکومت لیہہ میں واقع تساس سوما مسجد 17ویں صدی کی ایک اہم تاریخی یادگار ہے، جو اس دور کی یادگار ہے جب لیہہ قدیم شاہراہ ابریشم (Silk Route) پر ایک اہم تجارتی مرکز اور پڑاؤ تھا۔ یہ مسجد اس وقت تعمیر کی گئی جب وسطی ایشیا، کشمیر، پنجاب اور دیگر علاقوں کے تاجر لیہہ میں جمع ہوتے تھے۔ ان میں سے کئی تاجر مسلمان تھے جنہیں نماز ادا کرنے کے لیے ایک جگہ کی ضرورت تھی، جس کے نتیجے میں تساس سوما مسجد کا قیام عمل میں آیا۔ یہ مسجد خواتین کی عبادت کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی اور اس مسجد میں طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے مدرسہ بھی تھا۔

لداخ کی قدیم ترین تساس سوما مسجد (ETV Bharat)

آج کے دور میں بھی تساس سوما مسجد مقامی مسلم آبادی کے لیے مسجد اور مرکز کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ یہ مسجد لداخ کی متنوع اور باہمی طور پر جڑی ہوئی تاریخ کی علامت ہے، جہاں تجارت، مذہب اور ثقافت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

ا
تساس سوما مسجد کے قدیم استون آج بھی صحیح سالم ہیں (ای ٹی وی بھارت)

سال 2007 میں بحالی کا کام

2007 میں، تبتی ہیریٹیج فنڈ (THF) اور انجمن معین الاسلام سوسائٹی نے لیہہ کی قدیم ترین مسجد - تساس سوما - کی بحالی کے لیے باہمی تعاون کیا۔ یہ مسجد تساس سوما باغ میں واقع ہے جو قدیم شہر کے چیوٹے رنتھاک علاقے میں موجود ہے۔ انجمن معین الاسلام کے صدر ڈاکٹر عبدالقیوم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’لیہہ اس تجارتی نیٹ ورک کا مرکز تھا جہاں لداخ، پنجاب، کشمیر، اور ممکنہ طور پر چین کے تاجروں کی آمد ہوتی تھی۔ ایران اور یورپ سے بھی تاجر یہاں سے گزرتے تھے، جبکہ وسطی ایشیا کے تاجر، خاص طور پر نوبرا پنامک علاقے سے یہاں آتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر تاجر مسلمان تھے اور وہ تساس سوما میں جمع ہو کر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں آج بھی اذان دی جاتی ہے اور پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے۔‘‘

ا
تساس سوما مسجد ماضی میں سرائے کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی (ای ٹی وی بھارت)

وسطی ایشیائی تجارتی کاروانوں کا مرکز

انجمن معین الاسلام کے ایکزیکٹو ممبر ڈاکٹر نور محمد کا کہنا ہے یہ مسجد لیہہ کی سب سے قدیم عوامی مساجد میں سے ایک ہے۔ تساس سوما کا علاقہ وسطی ایشیا سے آنے والے تجارتی کاروانوں کا ایک اہم پڑاؤ تھا۔ دیگر کیمپنگ مقامات میں پولیس اسٹیشن اور چیف میڈیکل آفیسر کے دفتر کے نزدیک والا علاقہ، ٹیکسی اسٹینڈ زنگستی کے قریب کا علاقہ اور بلکھنگ شامل تھے، جہاں بلتستان سے آنے والے لوگ قیام کرتے تھے۔

ا
بحالی کے دوران مسجد کے قدیم دروازے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی (ای ٹی وی بھارت)

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسجد 1950 کی دہائی تک فعال رہی، تاہم اس کی خستہ حالی کے بعد یہاں نماز ادا نہیں کی گئی۔ بعد میں THF اور انجمن معین الاسلام نے اس مسجد کو بحال کیا۔ مسجد کی بحالی کے حوالہ سے انہوں نے کہا: ’’مسجد کا مرکزی دروازہ اور ستون قدیم حالت میں ہی رکھے گئے ہیں اور یہ بہت ہی قدیم ہیں۔ یہ مسجد کبھی عوامی عبادت کا مرکز تھی اور اس میں آنے والے کاروانوں کے درمیان تجارت بھی ہوتی تھی۔

ا
موجودہ دور میں سینکڑوں سیاح اس مسجد کی زیارت کے لیے آتے ہیں (ای ٹی وی بھارت)

مسجد کا قیام اور اہمیت

ڈاکٹر نور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’زیادہ تر تاجر جو وسطی ایشیا سے یہاں آتے تھے، مسلمان تھے، اور اُس وقت لیہہ میں ان کے لیے کوئی نماز کے لیے مخصوص جگہ نہیں تھی۔ ان مسلم تاجروں نے بادشاہ سنگے نامگیال سے درخواست کی کہ انہیں مسجد کے لیے زمین فراہم کی جائے، جس کے بعد بادشاہ نے انہیں یہ علاقہ مختص کیا، جہاں ایک چھوٹی مسجد تعمیر کی گئی۔ تساس سوما کا علاقہ ان تاجروں کے لیے ایک اہم کیمپنگ گراؤنڈ تھا اور اس کا ایک محراب آج بھی محفوظ ہے۔‘‘ موجودہ دور میں یہاں نہ صرف پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے بلکہ بہت سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے بھی آتے ہیں کیونکہ یہ اب وسطی ایشیائی عجائب گھر کے کمپاؤنڈ کا حصہ ہے۔‘‘

تاریخی حوالہ جات

مؤرخ غنی شیخ اپنی تحریر ’’اسلامی تعمیرات لداخ میں‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’1620 کے کچھ عرصے بعد لیہہ میں کاروبار کرنے والے مسلمان تاجروں کی درخواست پر سنگے نامگیال نے انہیں مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فراہم کیا۔ یہ مسجد لیہہ کی سب سے قدیم عوامی مسجد ہے۔ حالانکہ اب اسے ترک کر دیا گیا ہے اور اُس وقت بھی یہ صرف مختصر مدت کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔‘‘

غنی شیخ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ مسجد یک منزلہ عمارت ہے جس میں ایک بڑا کمرہ ہے اور سائیڈ میں ایک چھوٹا داخلی دروازہ ہے۔ مسجد میں لکڑی کے چھ ستون ہیں جن کے سرے لداخی طرز میں تراشے گئے ہیں لیکن انہیں رنگا نہیں کیا گیا۔ مسجد کا مینار نہیں ہے اور اس میں ایک لکڑی کا گنبد تھا جو اب شاہ ہمدان مسجد میں میں نصب ہے۔‘‘

بحالی کی کوششیں

سوشل انتھرو پالوجسٹ اور لداخ آرٹس اینڈ میڈیا آرگنائزیشن کی بانی مونیشا احمد اپنی یادداشت میں مرحوم مورخ عبد الغنی شیخ کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’عبدالغنی شیخ نے تاریخی عمارات کی بحالی کے لیے کام کیا تاکہ لداخ کی ثقافتی وراثت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ انہیں 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی لیہہ کی پہلی عوامی مسجد تساس سوما کی بحالی کے آغاز کے لیے یاد رکھا جائے گا۔‘‘

رنچین انگمو

لیہہ (لداخ): یوٹی لداخ کے دارالحکومت لیہہ میں واقع تساس سوما مسجد 17ویں صدی کی ایک اہم تاریخی یادگار ہے، جو اس دور کی یادگار ہے جب لیہہ قدیم شاہراہ ابریشم (Silk Route) پر ایک اہم تجارتی مرکز اور پڑاؤ تھا۔ یہ مسجد اس وقت تعمیر کی گئی جب وسطی ایشیا، کشمیر، پنجاب اور دیگر علاقوں کے تاجر لیہہ میں جمع ہوتے تھے۔ ان میں سے کئی تاجر مسلمان تھے جنہیں نماز ادا کرنے کے لیے ایک جگہ کی ضرورت تھی، جس کے نتیجے میں تساس سوما مسجد کا قیام عمل میں آیا۔ یہ مسجد خواتین کی عبادت کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی اور اس مسجد میں طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے مدرسہ بھی تھا۔

لداخ کی قدیم ترین تساس سوما مسجد (ETV Bharat)

آج کے دور میں بھی تساس سوما مسجد مقامی مسلم آبادی کے لیے مسجد اور مرکز کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ یہ مسجد لداخ کی متنوع اور باہمی طور پر جڑی ہوئی تاریخ کی علامت ہے، جہاں تجارت، مذہب اور ثقافت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

ا
تساس سوما مسجد کے قدیم استون آج بھی صحیح سالم ہیں (ای ٹی وی بھارت)

سال 2007 میں بحالی کا کام

2007 میں، تبتی ہیریٹیج فنڈ (THF) اور انجمن معین الاسلام سوسائٹی نے لیہہ کی قدیم ترین مسجد - تساس سوما - کی بحالی کے لیے باہمی تعاون کیا۔ یہ مسجد تساس سوما باغ میں واقع ہے جو قدیم شہر کے چیوٹے رنتھاک علاقے میں موجود ہے۔ انجمن معین الاسلام کے صدر ڈاکٹر عبدالقیوم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’لیہہ اس تجارتی نیٹ ورک کا مرکز تھا جہاں لداخ، پنجاب، کشمیر، اور ممکنہ طور پر چین کے تاجروں کی آمد ہوتی تھی۔ ایران اور یورپ سے بھی تاجر یہاں سے گزرتے تھے، جبکہ وسطی ایشیا کے تاجر، خاص طور پر نوبرا پنامک علاقے سے یہاں آتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر تاجر مسلمان تھے اور وہ تساس سوما میں جمع ہو کر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں آج بھی اذان دی جاتی ہے اور پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے۔‘‘

ا
تساس سوما مسجد ماضی میں سرائے کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی (ای ٹی وی بھارت)

وسطی ایشیائی تجارتی کاروانوں کا مرکز

انجمن معین الاسلام کے ایکزیکٹو ممبر ڈاکٹر نور محمد کا کہنا ہے یہ مسجد لیہہ کی سب سے قدیم عوامی مساجد میں سے ایک ہے۔ تساس سوما کا علاقہ وسطی ایشیا سے آنے والے تجارتی کاروانوں کا ایک اہم پڑاؤ تھا۔ دیگر کیمپنگ مقامات میں پولیس اسٹیشن اور چیف میڈیکل آفیسر کے دفتر کے نزدیک والا علاقہ، ٹیکسی اسٹینڈ زنگستی کے قریب کا علاقہ اور بلکھنگ شامل تھے، جہاں بلتستان سے آنے والے لوگ قیام کرتے تھے۔

ا
بحالی کے دوران مسجد کے قدیم دروازے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی (ای ٹی وی بھارت)

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسجد 1950 کی دہائی تک فعال رہی، تاہم اس کی خستہ حالی کے بعد یہاں نماز ادا نہیں کی گئی۔ بعد میں THF اور انجمن معین الاسلام نے اس مسجد کو بحال کیا۔ مسجد کی بحالی کے حوالہ سے انہوں نے کہا: ’’مسجد کا مرکزی دروازہ اور ستون قدیم حالت میں ہی رکھے گئے ہیں اور یہ بہت ہی قدیم ہیں۔ یہ مسجد کبھی عوامی عبادت کا مرکز تھی اور اس میں آنے والے کاروانوں کے درمیان تجارت بھی ہوتی تھی۔

ا
موجودہ دور میں سینکڑوں سیاح اس مسجد کی زیارت کے لیے آتے ہیں (ای ٹی وی بھارت)

مسجد کا قیام اور اہمیت

ڈاکٹر نور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’زیادہ تر تاجر جو وسطی ایشیا سے یہاں آتے تھے، مسلمان تھے، اور اُس وقت لیہہ میں ان کے لیے کوئی نماز کے لیے مخصوص جگہ نہیں تھی۔ ان مسلم تاجروں نے بادشاہ سنگے نامگیال سے درخواست کی کہ انہیں مسجد کے لیے زمین فراہم کی جائے، جس کے بعد بادشاہ نے انہیں یہ علاقہ مختص کیا، جہاں ایک چھوٹی مسجد تعمیر کی گئی۔ تساس سوما کا علاقہ ان تاجروں کے لیے ایک اہم کیمپنگ گراؤنڈ تھا اور اس کا ایک محراب آج بھی محفوظ ہے۔‘‘ موجودہ دور میں یہاں نہ صرف پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے بلکہ بہت سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے بھی آتے ہیں کیونکہ یہ اب وسطی ایشیائی عجائب گھر کے کمپاؤنڈ کا حصہ ہے۔‘‘

تاریخی حوالہ جات

مؤرخ غنی شیخ اپنی تحریر ’’اسلامی تعمیرات لداخ میں‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’1620 کے کچھ عرصے بعد لیہہ میں کاروبار کرنے والے مسلمان تاجروں کی درخواست پر سنگے نامگیال نے انہیں مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فراہم کیا۔ یہ مسجد لیہہ کی سب سے قدیم عوامی مسجد ہے۔ حالانکہ اب اسے ترک کر دیا گیا ہے اور اُس وقت بھی یہ صرف مختصر مدت کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔‘‘

غنی شیخ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ مسجد یک منزلہ عمارت ہے جس میں ایک بڑا کمرہ ہے اور سائیڈ میں ایک چھوٹا داخلی دروازہ ہے۔ مسجد میں لکڑی کے چھ ستون ہیں جن کے سرے لداخی طرز میں تراشے گئے ہیں لیکن انہیں رنگا نہیں کیا گیا۔ مسجد کا مینار نہیں ہے اور اس میں ایک لکڑی کا گنبد تھا جو اب شاہ ہمدان مسجد میں میں نصب ہے۔‘‘

بحالی کی کوششیں

سوشل انتھرو پالوجسٹ اور لداخ آرٹس اینڈ میڈیا آرگنائزیشن کی بانی مونیشا احمد اپنی یادداشت میں مرحوم مورخ عبد الغنی شیخ کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’عبدالغنی شیخ نے تاریخی عمارات کی بحالی کے لیے کام کیا تاکہ لداخ کی ثقافتی وراثت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ انہیں 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی لیہہ کی پہلی عوامی مسجد تساس سوما کی بحالی کے آغاز کے لیے یاد رکھا جائے گا۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.