اننت ناگ: وادی کشمیر میں مختلف پکوان تیار کرنے کے لئے سرسوں کے تیل کا استعمال عام ہے، سرسوں کے تیل کا یہاں کے لذیذ پکوانوں سے گہرا تعلق ہے، ویج ہو یا نان ویج یہاں ہر گھر میں سرسوں کے تیل سے پکوان تیار کرنے کی روایت ہے، دنیا میں مشہور کشمیری وازوان کو لذیذ اور ذائقہ دار بنانے میں سرسوں کے تیل کا ایک اہم رول ہوتا ہے۔ وادی کشمیر میں سرسوں کی کٹائی کا سیزن شروع ہو چکا ہے، موسم خوشگوار ہونے کے ساتھ ہی کسان سرسوں کی کٹائی کی تیاری کر رہے ہیں اور وادی کے کئی مقامات پر کٹائی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
گزشتہ برسوں کے مقابلہ میں رواں برس سرسوں کی پیداوار میں کئی گناہ اضافہ متوقع ہے جس سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ مارکیٹ میں سرسوں کے تیل کی قیمتوں میں مزید کمی ہونے کے کا امکان ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے چیف ایگریکلچر افسر اننت ناگ اعجاز حسین ڈار نے کہا کہ ’اوئل سیڈ مشن کے تحت محکمہ زراعت سرسوں کی پیداوار کو بڑے پیمانے پر فروغ دے رہا ہے، جس کے تحت کسانوں میں اعلی کوالٹی اور ہائی بریڈ اقسام کے بیج تقسیم کئے جا رہے ہیں، جس کے خاطر خواہ نتائج زمینی سطح پر سامنے آرہے ہیں اور کسان سرسوں کی زیادہ سے زیادہ کاشتکاری کےلئے راغب ہورہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 برسوں کے دوران کشمیر میں سرسوں کی کاشتکاری 3 ہزار ہیکٹر سے 1 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر اراضی تک پہنچ گیا ہے، جس سے سالانہ 14 لاکھ کونٹل سرسوں کے بیج (آئیل سیڈ) کی پیداوار ہوئی ہے ،پیداواری صلاحیت کو مزید وسعت ملنے کے بعد رواں برس سرسوں کی پیداوار میں 20 فیصد اضافہ ہونے کے آثار ہیں،جس سے رواں برس سرسوں کی پیداوار 16 لاکھ 8 سو کنٹل تک پہنچنے کی توقع ہے جو سرسوں کی پیداوار میں رکارڈ توڑ اضافہ ہوگا۔ ڈار نے کہا کی دیگر اضلاع کے مقابلہ میں اننت ناگ ضلع سرسوں کی پیداوار میں سرفہرست ہے، ضلع میں 24 ہزار ہیکٹر زرعی اراضی پر سرسوں کی کاشتکاری کی جاتی ہے جس سے 2.88 لاکھ کنٹل سرسوں کی پیداوار ہوتی ہے۔
اعجاذ حسین ڈار نے کہا کہ پیداواری صلاحیت بڑھنے سے درآمدات کا انحصار کم ہو رہا ہے جس سے مارکیٹ میں سرسوں کے تیل کی قیمتیں اعتدال میں آگئی ہیں، کیونکہ مقامی پیداوار کی شرح میں اضافہ ہونے سے صارفین کی مانگ کافی حد تک پوری ہورہی ہے۔ ماہر ماحولیات راؤ فرمان علی کا کہنا ہے کہ ’سرما کے دوران موسم سازگار رہنے سے سرسوں کی بہتر پیداوار ہوئی ہے لیکن محکمہ زراعت کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے کہاکہ پیداواری صلاحیت بڑھنے سے نوجوان طبقہ بھی مختلف فلاحی اسکیموں کے ذریعہ ایگریکلچر کی جانب راغب ہورہے ہیں جس کا سہرا محکمہ زراعت کو جاتا ہے۔