ETV Bharat / jammu-and-kashmir

چار سو کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی شرط: کیا کشمیریوں کیلئے زمین تنگ کی جا رہی ہے؟ - JK Land Policy

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 1, 2024, 6:48 PM IST

Updated : Aug 1, 2024, 7:46 PM IST

جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے حال ہی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کیلئے انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی (Industrial Land Allotment Policy) میں ترمیم کی ہے، جس میں ایک شرط یہ شامل کی گئی ہے کہ 4000 کروڑ روپے کی کم از کم سرمایہ کاری کو ترجیح دی جائے گی۔ اس شرط نے مقامی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے میر فرحت نے تاجروں کی پریشانی کا اس رپورٹ میں احاطہ کیا ہے۔

a
Aerial View of Srinagar City (File Photo)
سینئر ٹریڈ یونین لیڈر ابرار احمد (ای ٹی وی بھارت)

سرینگر: جموں و کشمیر انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے مرکز کے زیر انتظام اس خطے میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے ترمیم شدہ صنعتی اراضی الاٹمنٹ پالیسی کو منظوری دی ہے، جس میں ایک شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اراضی ترجیحی طور پر 4,000 کروڑ روپے کی کم سے کم سرمایہ کاری والے سرمایہ کاروں کو الاٹ کی جائے گی۔

اس ترمیم نے مقامی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ پالیسی میں تبدیلی سے ’’بیرونی لوگوں‘‘ کو سہولت ملے گی اور مقامی لوگوں کو دوڑ سے باہر کر دیا جائے گا۔

یہ ترمیم راج بھون میں 26 جولائی کو منعقد ہوئے جموں و کشمیر انتظامی کونسل (جے کے اے سی) کے اجلاس میں کی گئی، جو سرینگر کے راج بھون میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی صدارت میں منعقد ہوا۔ ایل جی کے واحد مشیر راجیو رائے بھٹناگر، چیف سیکریٹری اتل ڈلو اور ایل جی کے پرنسپل سیکریٹری مندیپ کمار بھنڈاری نے ترمیم کی تجاویز کو منظوری دی اور ساتھ ہی جموں و کشمیر میں صنعتی اسٹیٹس کی ترقی کے لیے محکمہ صنعت و تجارت کو 3188 کنال اور 8 مرلہ زمین کے تبادلے کی اجازت بھی دی گئی۔ (ایک کنال ہیکٹیئر کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے جبکہ 20 مرلوں سے ایک کنال بنتا ہے۔)

منتقل شدہ اراضی کے پارسل میں ضلع کپوارہ میں 114 کنال اور 3 مرلہ اراضی، بانڈی پورہ میں 1000 کنال اراضی، اننت ناگ میں 1094 کنال اور 16 مرلہ اراضی، پلوامہ میں 375 کنال اور 6 مرلہ اراضی، بارہمولہ میں 240 کنال اور بڈگام میں 364 کنال اور 3 مرلہ اراضی شامل ہے۔ اسی میٹنگ میں، انتظامی کونسل نے جموں و کشمیر انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی 2021 تا 2030 میں ترامیم کی منظوری دی۔ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ان تبدیلیوں سے بڑی سرمایہ کاری کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور یہ جموں و کشمیر میں روزگار پیدا کرنے کے وسائل میں فروغ کیلئے مددگار ثابت ہوگی۔

جموں و کشمیر کے محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ترمیم کو یونین ٹیریٹری کی معیشت کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل بڑی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے منظور کیا گیا تھا اور حکومت صنعتی و سروس سیکٹر سمیت میگا پروجیکٹس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر زمین الاٹ کر سکتی ہے۔ کم از کم سرمایہ کاری والی اکائیاں (زمین اور ورکنگ کیپیٹل کو چھوڑ کر) کم از کم 4000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

صنعتی انفراسٹرکچر کی ترقی 2019 کے بعد ایک فوکس ایریا رہا ہے اور اسے روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے اہم وسیلے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ ترمیم درخواست دہندگان یا خواہش مند سرمایہ کاروں کے درمیان مساوات اورشفافیت کو یقینی بنائے گی، مقامی فیکٹری مالکان اور تجارتی اداروں نے کہا کہ یہ مقامی سرمایہ کاروں کو زمین حاصل کرنے کے موقع سے محروم کر دے گا کیونکہ 4000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ان کی صلاحیت سے باہر ہے۔

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے سینئر نائب صدر اسحاق شنگلو نے کہا کہ جموں و کشمیر کے باشندوں کو اس ترمیم شدہ پالیسی کا ’’کوئی فائدہ‘‘ نہیں ہوگا کیونکہ کوئی مقامی سرمایہ کار 4000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ شنگلو کے مطابق اس پالیسی سے صرف باہر کے لوگوں کو فائدہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی مقامی فرد اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ 4000 کروڑ روپے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے اور اس میں ورکنگ کیپیٹل اور زمین کی لاگت شامل نہیں ہے۔ انکے مطابق اگر باہر سے کوئی آتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے، لیکن مقامی لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے۔

شنگلو نے مزید کہا کہ باغبانی کے شعبے میں مقامی بڑی صنعتیں جیسے کولڈ اسٹوریج کی کل سرمایہ کاری 1700 کروڑ روپے ہے اور چند سیمنٹ پلانٹس میں 2000 سے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ شنگلو کا کہنا ہے کہ کے سی سی آئی نے حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے اور تجارتی ادارہ مکمل پالیسی رہنما خطوط حاصل کرنے کے بعد تفصیلی تبصرہ کرے گا۔

سرینگر میں ایک فیکٹری چلانے والے آفاق احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ فیکٹری مالکان نئی پالیسیوں یا بیرونی سرمایہ کاری کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ پالیسیاں مقامی صنعتوں کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئیں۔ جموں و کشمیر میں صنعتی شعبہ زیادہ تر مائیکرو اور میڈیم صنعتوں پر منحصر ہے۔ اس صنعت نے گزشتہ تین دہائیوں میں غیر مستحکم صورتحال کے دوران معیشت کو رواں دواں رکھا ہے۔ اس لیے حکومت کو پہلے مقامی صنعت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

ایک سینئر ٹریڈ یونین لیڈر ابرار احمد نے کہا کہ مقامی لوگ ایک ایسے ماحول میں مقابلہ نہیں کر سکتے جب حکومت ایسی پالیسیاں لے کر آتی ہے جو سرمایہ کاری کو بڑی شرائط کے ساتھ منسلک کرتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ (ترمیم شدہ پالیسی) اس جگہ سے وسائل کو ختم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ بڑے سرمایہ کاروں کو یہاں آنے کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے لیکن مقامی سرمایہ کاروں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ اگر غیر مقامی سرمایہ کار یہاں آئیں گے اور آمدنی یا روزگار پیدا کر سکتے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ مقامی صنعتوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم رہیں گے؟ مقامی لوگوں کو سہولت نہیں دی جا رہی ہے کیونکہ انہیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انکے مطابق اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Promotion of Foreign Investment in JK: صنعتی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی پالیسی منظور

سینئر ٹریڈ یونین لیڈر ابرار احمد (ای ٹی وی بھارت)

سرینگر: جموں و کشمیر انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے مرکز کے زیر انتظام اس خطے میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے ترمیم شدہ صنعتی اراضی الاٹمنٹ پالیسی کو منظوری دی ہے، جس میں ایک شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اراضی ترجیحی طور پر 4,000 کروڑ روپے کی کم سے کم سرمایہ کاری والے سرمایہ کاروں کو الاٹ کی جائے گی۔

اس ترمیم نے مقامی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ پالیسی میں تبدیلی سے ’’بیرونی لوگوں‘‘ کو سہولت ملے گی اور مقامی لوگوں کو دوڑ سے باہر کر دیا جائے گا۔

یہ ترمیم راج بھون میں 26 جولائی کو منعقد ہوئے جموں و کشمیر انتظامی کونسل (جے کے اے سی) کے اجلاس میں کی گئی، جو سرینگر کے راج بھون میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی صدارت میں منعقد ہوا۔ ایل جی کے واحد مشیر راجیو رائے بھٹناگر، چیف سیکریٹری اتل ڈلو اور ایل جی کے پرنسپل سیکریٹری مندیپ کمار بھنڈاری نے ترمیم کی تجاویز کو منظوری دی اور ساتھ ہی جموں و کشمیر میں صنعتی اسٹیٹس کی ترقی کے لیے محکمہ صنعت و تجارت کو 3188 کنال اور 8 مرلہ زمین کے تبادلے کی اجازت بھی دی گئی۔ (ایک کنال ہیکٹیئر کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے جبکہ 20 مرلوں سے ایک کنال بنتا ہے۔)

منتقل شدہ اراضی کے پارسل میں ضلع کپوارہ میں 114 کنال اور 3 مرلہ اراضی، بانڈی پورہ میں 1000 کنال اراضی، اننت ناگ میں 1094 کنال اور 16 مرلہ اراضی، پلوامہ میں 375 کنال اور 6 مرلہ اراضی، بارہمولہ میں 240 کنال اور بڈگام میں 364 کنال اور 3 مرلہ اراضی شامل ہے۔ اسی میٹنگ میں، انتظامی کونسل نے جموں و کشمیر انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی 2021 تا 2030 میں ترامیم کی منظوری دی۔ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ان تبدیلیوں سے بڑی سرمایہ کاری کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور یہ جموں و کشمیر میں روزگار پیدا کرنے کے وسائل میں فروغ کیلئے مددگار ثابت ہوگی۔

جموں و کشمیر کے محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ترمیم کو یونین ٹیریٹری کی معیشت کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل بڑی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے منظور کیا گیا تھا اور حکومت صنعتی و سروس سیکٹر سمیت میگا پروجیکٹس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر زمین الاٹ کر سکتی ہے۔ کم از کم سرمایہ کاری والی اکائیاں (زمین اور ورکنگ کیپیٹل کو چھوڑ کر) کم از کم 4000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

صنعتی انفراسٹرکچر کی ترقی 2019 کے بعد ایک فوکس ایریا رہا ہے اور اسے روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے اہم وسیلے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ ترمیم درخواست دہندگان یا خواہش مند سرمایہ کاروں کے درمیان مساوات اورشفافیت کو یقینی بنائے گی، مقامی فیکٹری مالکان اور تجارتی اداروں نے کہا کہ یہ مقامی سرمایہ کاروں کو زمین حاصل کرنے کے موقع سے محروم کر دے گا کیونکہ 4000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ان کی صلاحیت سے باہر ہے۔

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے سینئر نائب صدر اسحاق شنگلو نے کہا کہ جموں و کشمیر کے باشندوں کو اس ترمیم شدہ پالیسی کا ’’کوئی فائدہ‘‘ نہیں ہوگا کیونکہ کوئی مقامی سرمایہ کار 4000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ شنگلو کے مطابق اس پالیسی سے صرف باہر کے لوگوں کو فائدہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی مقامی فرد اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ 4000 کروڑ روپے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے اور اس میں ورکنگ کیپیٹل اور زمین کی لاگت شامل نہیں ہے۔ انکے مطابق اگر باہر سے کوئی آتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے، لیکن مقامی لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے۔

شنگلو نے مزید کہا کہ باغبانی کے شعبے میں مقامی بڑی صنعتیں جیسے کولڈ اسٹوریج کی کل سرمایہ کاری 1700 کروڑ روپے ہے اور چند سیمنٹ پلانٹس میں 2000 سے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ شنگلو کا کہنا ہے کہ کے سی سی آئی نے حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے اور تجارتی ادارہ مکمل پالیسی رہنما خطوط حاصل کرنے کے بعد تفصیلی تبصرہ کرے گا۔

سرینگر میں ایک فیکٹری چلانے والے آفاق احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ فیکٹری مالکان نئی پالیسیوں یا بیرونی سرمایہ کاری کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ پالیسیاں مقامی صنعتوں کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئیں۔ جموں و کشمیر میں صنعتی شعبہ زیادہ تر مائیکرو اور میڈیم صنعتوں پر منحصر ہے۔ اس صنعت نے گزشتہ تین دہائیوں میں غیر مستحکم صورتحال کے دوران معیشت کو رواں دواں رکھا ہے۔ اس لیے حکومت کو پہلے مقامی صنعت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

ایک سینئر ٹریڈ یونین لیڈر ابرار احمد نے کہا کہ مقامی لوگ ایک ایسے ماحول میں مقابلہ نہیں کر سکتے جب حکومت ایسی پالیسیاں لے کر آتی ہے جو سرمایہ کاری کو بڑی شرائط کے ساتھ منسلک کرتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ (ترمیم شدہ پالیسی) اس جگہ سے وسائل کو ختم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ بڑے سرمایہ کاروں کو یہاں آنے کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے لیکن مقامی سرمایہ کاروں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ اگر غیر مقامی سرمایہ کار یہاں آئیں گے اور آمدنی یا روزگار پیدا کر سکتے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ مقامی صنعتوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم رہیں گے؟ مقامی لوگوں کو سہولت نہیں دی جا رہی ہے کیونکہ انہیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انکے مطابق اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Promotion of Foreign Investment in JK: صنعتی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی پالیسی منظور

Last Updated : Aug 1, 2024, 7:46 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.