نئی دہلی: نیشنل کانفرنس کے سرینگر حلقے کے رکن پارلیمان آغا سید روح اللہ مہدی نے 5 اگست 2019 کو پارلیمنٹ کا کالا کارنامہ قرار دیا جو نہ ملک کیلئے اور نہ ہی جمہوریت کیلئے ٹھیک ہوا۔ محکمہ دیہی ترقی کیلئے بجٹ تجاویز کیلئے بلائی گئی بحث میں حصہ لیتے ہوئے آغا سید روح اللہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ملک کے دیگر شہریوں کی طرح برابری کی سطح پر ایوان میں نہیں بول سکتے کیونکہ جموں و کشمیر کے عوام سے برابری کا رتبہ چھین لیا گیا ہے۔
آغا مہدی نے 5 اگست کا تذکرہ چھیڑتے ہوئے کہا کہ اس روز 2019 میں اس ایوان میں کالا کارنامہ انجام دیا گیا۔ مہدی کا اشارہ اس تاریخی فیصلے کی طرف تھا جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت کو ختم کیا اور آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو جزوی یا کلی طور منسوخ کیا جبکہ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔
جب ایک بھاجپا رکن نے کہا کہ اس روز جو بھی ہوا وہ ٹھیک ہوا تو مہدی نے انہیں مخاطب ہوکر کہا کہ یہ آپکی پارٹی کیلئے ٹھیک ہوا ہوگا لیکن یہ ملک اور جمہوریت کیلئے ٹھیک نہیں ہوا۔ بھاجپا ارکان نے جب انکی تقریر میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تو آغا مہدی نے کہا کہ ’’ڈکٹیٹر کی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی کی بات نہیں سنتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرضی کے غلام نہیں ہیں۔ انہوں نے رامائن کے ایک قصے کو چھڑتے ہوئے کہا کہ کس طرح اس دن جموں و کشمیر کی عزت کو تار تار کیا گیا اور یہ لوگ ہنس رہے تھے اور مزے لوٹ رہے تھے۔ ایوان کے صدر جگدمبیکا پال نے اس موقعے پر کہا کہ یہ الفاظ کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
روح اللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کی لیڈرشپ کو اس روز قید کر دیا گیا۔ اس سے قبل محکمہ تعلیم سے متعلق بجٹ تجاویز پر بولتے ہوئے آغا روح اللہ نے کہا کشمیر وادی میں تعلیمی نظام کو درہم برہم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے تعلیمی اداروں میں موسم کے اعتبار سے لمبی تعطیلات موسم سرما میں ہوتی تھیں جس سے قبل امتحانات منعقد کئے جاتے تھے لیکن اب حکام نے اس نظام کو تبدیل کرکے امتحانات سرمائی تعطیلات کے بعد منعقد کرنے کا نظام رائج کیا ہے جو کہ اس خطے کی ضروریات کے بالکل برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ودھان اور ایک نشان کا اطلاق ہر چیز پر نہیں ہوتا۔ یہ نظام دوبارہ مروجہ طریقے پر بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کا قیمتی وقت بچایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اقلیتوں کیلئے مخصوص تعلیمی گرانٹس کو یا تو مکمل طور بند کیا گیا ہے یا ان میں 90 فیصد حد تک تخفیف کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اقلیتوں کو تعلیم میں پچھاڑنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد پی ڈی پی کا دبدبہ جنوبی کشمیر میں کیوں کم ہوا - PDP after abrogation of article 370
کیا دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا؟ - Article 370 Abrogation
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے پانچ برس بعد بھی کشمیر میں خواتین کمیشن کا قیام کیوں نہیں ہوسکا؟ -