سرینگر (جموں کشمیر) : پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) لیڈر اور رکن اسمبلی وحید پرہ نے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی (کابینہ کی) پہلی قرارداد پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حیثیت کی بحالی کی قرارداد دراصل 5 اگست 2019 کے فیصلے کی توثیق کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 پر کوئی قرارداد نہ لانا اور اسے صرف ریاستی حیثیت تک محدود کرنا ایک سنگین دھچکہ ہے، خاص طور پر جب نیشنل کانفرنس نے انتخابی مہم کے دوران آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ عمر عبداللہ کی سربراہی میں کابینہ نے ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق ایک قراردار منظور کی ہے، تاہم اس قرارداد میں دفعہ 370سے متعلق کچھ بھی درج نہیں۔
Omar Abdullah's first resolution on statehood is nothing less than ratification of the August 5th, 2019 decision. No resolution on Article 370 and scaling down the demand to mere statehood is a huge setback, especially after seeking votes on the promise of restoring Article 370.
— Waheed Para (@parawahid) October 18, 2024
دریں اثناء، جموں کشمیر پیپلز کانفرنس (پی سی) کے صدر اور ہندوارہ سے منتخب رکن اسمبلی، سجاد غنی لون، نے بھی اس معاملے پر عمر عبداللہ کی کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی جانب سے ریاستی حیثیت پر قرارداد پاس ہونے کی خبریں ایک معتبر اخبار میں شائع ہوئیں، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسی اہم قرارداد کو خفیہ رکھا گیا اور اسے عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔
سجاد لون نے کہا: ’’میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ریاستی حیثیت پر قرارداد کو اسمبلی کے بجائے کابینہ میں کیوں پیش کیا گیا! کابینہ ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام کی تمام آراء اور جذبات کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پورے ملک میں ایسے اہم معاملات جیسے کہ ریاستی درجہ اور آرٹیکل 370 کے فیصلے اسمبلی کے ذریعے کیے جاتے ہیں، نہ کہ کابینہ میں۔‘‘
Apparently the cabinet has passed a resolution on statehood. This is as per the headlines of an authentic newspaper based out of Jammu.
— Sajad Lone (@sajadlone) October 18, 2024
In wonderment why should a resolution on statehood passed by the cabinet be shrouded in mystery and secrecy — that only one newspaper…
سجاد لون نے یاد دلایا کہ ’’جب نیشنل کانفرنس نے 2000 میں خودمختاری پر قرارداد منظور کی تھی، تو وہ اسمبلی میں پیش کی گئی تھی نہ کہ کابینہ میں۔‘‘ انہوں نے نیشنل کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ اب ہر چیز کو معمولی بنا دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کی جاتی تو وہ دیکھنا چاہیں گے کہ بی جے پی اور دیگر جماعتیں اس پر کیسے ووٹ دیتی ہیں، خاص طور پر جب بات آرٹیکل 370 اور ریاستی حیثیت کی ہو۔
سجاد لون نے نیشنل کانفرنس کے 2024 کے انتخابی منشور کا بھی حوالہ دیا جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ’’آرٹیکل 370 اور 35A کو بحال کیا جائے گا اور جموں و کشمیر کو 5 اگست 2019 سے پہلے والی ریاستی حیثیت میں واپس لایا جائے گا۔‘‘ سجاد لونے کہا: ’’منشور کے آخری پیرے میں سب کچھ صاف صاف لکھا ہے۔ ہم کوئی غیر معمولی مطالبہ نہیں کر رہے، بس وہی کریں جو نیشنل کانفرنس نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: ہماری پارٹی دفعہ 370 کے لئے سیاسی جدو جہد جاری رکھے گی: پی ڈی یوتھ لیڈر - Article 370