جموں: صوبہ جموں کے ریاسی علاقے میں منگل کو بھی سرچ آپریشن جاری ہے۔ جموں کشمیر پولیس نے پیر کے روز 11 ٹیمیں تشکیل دیں اور اتوار کی شام جموں کے ریاسی ضلع میں یاتریوں سے بھری ایک بس پر حملہ کرنے والے حملہ آوروں کو پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر تلاشی کارروائی شروع کر دی ہے۔ یاد رہے کہ عسکری حملہ میں نو یاتری ہلاک جبکہ 41زخمی ہو گئے تھے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان میں مقیم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے۔
ادھر، ریاستی تفتیشی ایجنسی (ایس آئی اے) اور قومی تحقیقات ایجنسی (این آئی اے) نے بھی تحقیقات میں شمولیت اختیار کی اور حملے کی جگہ پہنچ کے ثبوت و شواہد جمع کیے۔ پولیس نے مقامی باشندوں سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔ جموں کشمیر پولیس کے عہدیداروں نے بھی اس ضمن میں کارروائی تیز کر دی ہے اور ایل جی منوج سنھا از خود سیکورٹی صورتحال پر نگرانی رکھے ہوئے ہیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس رئیس محمد بھٹ کا کہنا ہے کہ ’’ریاسی میں عینی شاہدین سے گفتگو اور علاقے میں قدموں کے نشانات سے اخذ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر حملہ میں دو سے تین افراد ملوث ہو ہو سکتے ہیں تاہم ابھی تحقیقات جاری ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ میں لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے، تاہم ابھی تحقیقات جاری ہے۔‘‘
یاد رہے کہ 53 سیٹوں والی ایک بس ریاسی کے شیو کھوری مندر سے یاتریوں کو لے کر کٹرا جا رہی تھی اور اتوار کی شام تقریبا 6.10 بجے ریاسی کے تیریتھ گاؤں میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے بس پر فائرنگ کی اور بس ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوکر گہری کھائی میں جا گری۔ حادثہ کے نتیجے میں نو افراد ہلاک جبکہ 41شدید زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کا اس وقت اسپتال میں علاج و معالجہ کیا جا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے متوفین کے اہل خانہ کے لیے ایکس گریشیا ریلیف کے تحت دس دس لاکھ روپے جبکہ زخمیوں کے لیے پچاس ہزار روپے کی امداد واگزار کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جموں کشمیر میں یاتریوں پر بڑے عسکری حملے