ETV Bharat / jammu-and-kashmir

ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کے سابق ترجمان پر عائد پی ایس اے کو منسوخ کر دیا - JK highcourt Quashes PSA

جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے ایڈوکیٹ علی محمد لون عرف ایڈوکیٹ زاہد کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت احتیاطی نظر بندی کے حکم کو غیر قانونی اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا۔ عدالت نے ریاست کو ہدایت دی کہ وہ علی محمد لون کو پانچ لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا بھی کریں۔

Etv Bharatعدالت عالیہ نے جماعت اسلامی کے سابق ترجمان پرعائد پی ایس اے کو منسوخ کر دیا
عدالت عالیہ نے جماعت اسلامی کے سابق ترجمان پرعائد پی ایس اے کو منسوخ کر دیا
author img

By UNI (United News of India)

Published : Apr 27, 2024, 3:22 PM IST

سرینگر: جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کے سابق ترجمان کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت احتیاطی نظر بندی کے حکم کو غیر قانونی اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا۔
عدالت عالیہ نے پلوامہ کے ضلع مجسٹریٹ اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے جموں وکشمیر حکومت کو درخواست گزار کو پانچ لاکھ روپیے معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔

ایڈوکیٹ علی محمد لون عرف ایڈوکیٹ زاہد بمقابلہ حکومت جموں وکشمیر کے مقدمے کے سلسلے میں جسٹس راہول بھارتی کے سنگل بنچ نے کہا کہ 'یہ عدالت بغیر کسی مزاحمت کے عرضی گذار کی احتیاطی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتی ہے'۔

عدالت کے حکمنامے میں کہا گیا کہ 'عرضی گذار کو سال 2019 سے مارچ 2024 تک مسلسل نظر بندی کے 4 احکامات کے دوران 1080 دنوں سے زیادہ کی مدت تک احتیاطی حراست میں رکھ کر اس کی آزادی کو نقصان کو پہنچایا گیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'درخواست گزار کی احتیاطی نظر بندی کی آزمائش 3 مارچ 2019 سے شرع ہوئی جب ضلع مجسٹریٹ گاندبل نے جموں وکشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت اس کو ریاست کی سلامتی کے لئے نقصان دہ سرگرمیاں انجام دینے سے روکنے کے لئے نظر بند رکھا۔عدالت عالیہ نے جولائی 2019 میں عرضی گذار کی نظر بندی کو منسوخ کیا۔

رہائی کے حکم کے 8 روز بعد اور ابھی حراست میں ہوتے ہوئے ہی حکومت نے درخواست گزار کے خلاف 19 جولائی 2019 کو ایک اور پی ایس اے عائد کیا، جس کو عدالت نے 3 مارچ 2020 کو پھر منسوخ کر دیا اور اس بار ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے ان کی نظر بندی کو منظوری دے دی۔

حکومت نے ایڈوکیٹ زاہد علی پر 29 جون 2020 کو ایک اور پی ایس اے عائد کر دیا جس کو عدالت نے 24 فروری 2021 کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ نظر بندی کے حکم کی منظوری کی بنیادیں کمزور تھیں۔

عدالت عالیہ نے عرضی گزار کی احتیاطی حراست، جس کو ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے 14 ستمبر 2022 کو منظوری دی تھی اور پی ایس اے کے تحت ایڈوکیٹ زاہد علی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، کے متعلق مسلسل چوتھی بار موجودہ فیصلہ سنایا۔عدالت نے ضلع مسجٹریٹ پلوامہ اور ایس ایس پی پلوام کی نظر بندی کے چوتھے حکم کی منظوری سے قبل پی ایس اے کو منسوخ کرنے کے سابقہ احکامات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کرنے پر سرزنش کی۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ 'یہ کہنا کافی ہے کہ درخواست گذار کی احتیاطی نظر بندی یقینی طور پر گرچہ 'حقیقت' میں نہیں لیکن قانون میں بد دیانتی کی شکار ہے، حقیقت یہ ہے کہ ڈوزیئر اور نظر بندی کا حکم ایک ہی تاریخ کا ہے جو کہ 14 ستمبر 2022 ہے جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ درخواست گذار کی احتیاطی نظر بندی کا معاملہ پہلے ہی سوچی سمجھی ذہنیت کا نتیجہ ہے اور یہ کسی طرح در خواست گذار کو کسی مجرمانہ کیس میں سزا کے بغیر جیل میں بند رکھنا تھا۔

مزید پڑھیں: ہائی کورٹ نے نظر بندی کے حکم کو کالعدم قرار دیا


ایس ایس پی پلوامہ کے ڈوزئیر میں عرضی گزار کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور سرینگر صدر کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ایک وکیل کے طور قرار دیا'۔ڈوزیئر میں کہا گیا کہ عرضی گزار نے مصر کے عبدالقادی عودہ کے لٹریچر سے متاثر ہوکر جماعت اسلامی میں شرکت کی اور سال 1987 میں مسلم متحدہ محاز کے امیدوار کے طور پر پامپور حلقے سے اسمبلی الیکشن لڑا تھا۔

عدالت نے کہاکہ 'گرچہ عرضی گزار نے 25 لاکھ روپیے کے معاوضے کا دعویٰ کیا ہے تاہم عدالت کا موقف ہے کہ پانچ لاکھ روپیے کا معاوضہ انصاف کے مطابق ہے، عدالت درخواست گزار کی احتیاطی حراست کو غیر قانونی قرار دیتی ہے اور اس کو پانچ لاکھ روپیے کے معاوضے کا حقدار بھی قرار دیتی ہے جو جواب دہندگان کو فیصلے کے تاریخ سے تین ماہ کے اندر ادا کرنے ہیں'۔
(یو این آئی)

سرینگر: جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کے سابق ترجمان کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت احتیاطی نظر بندی کے حکم کو غیر قانونی اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا۔
عدالت عالیہ نے پلوامہ کے ضلع مجسٹریٹ اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے جموں وکشمیر حکومت کو درخواست گزار کو پانچ لاکھ روپیے معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔

ایڈوکیٹ علی محمد لون عرف ایڈوکیٹ زاہد بمقابلہ حکومت جموں وکشمیر کے مقدمے کے سلسلے میں جسٹس راہول بھارتی کے سنگل بنچ نے کہا کہ 'یہ عدالت بغیر کسی مزاحمت کے عرضی گذار کی احتیاطی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتی ہے'۔

عدالت کے حکمنامے میں کہا گیا کہ 'عرضی گذار کو سال 2019 سے مارچ 2024 تک مسلسل نظر بندی کے 4 احکامات کے دوران 1080 دنوں سے زیادہ کی مدت تک احتیاطی حراست میں رکھ کر اس کی آزادی کو نقصان کو پہنچایا گیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'درخواست گزار کی احتیاطی نظر بندی کی آزمائش 3 مارچ 2019 سے شرع ہوئی جب ضلع مجسٹریٹ گاندبل نے جموں وکشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت اس کو ریاست کی سلامتی کے لئے نقصان دہ سرگرمیاں انجام دینے سے روکنے کے لئے نظر بند رکھا۔عدالت عالیہ نے جولائی 2019 میں عرضی گذار کی نظر بندی کو منسوخ کیا۔

رہائی کے حکم کے 8 روز بعد اور ابھی حراست میں ہوتے ہوئے ہی حکومت نے درخواست گزار کے خلاف 19 جولائی 2019 کو ایک اور پی ایس اے عائد کیا، جس کو عدالت نے 3 مارچ 2020 کو پھر منسوخ کر دیا اور اس بار ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے ان کی نظر بندی کو منظوری دے دی۔

حکومت نے ایڈوکیٹ زاہد علی پر 29 جون 2020 کو ایک اور پی ایس اے عائد کر دیا جس کو عدالت نے 24 فروری 2021 کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ نظر بندی کے حکم کی منظوری کی بنیادیں کمزور تھیں۔

عدالت عالیہ نے عرضی گزار کی احتیاطی حراست، جس کو ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے 14 ستمبر 2022 کو منظوری دی تھی اور پی ایس اے کے تحت ایڈوکیٹ زاہد علی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، کے متعلق مسلسل چوتھی بار موجودہ فیصلہ سنایا۔عدالت نے ضلع مسجٹریٹ پلوامہ اور ایس ایس پی پلوام کی نظر بندی کے چوتھے حکم کی منظوری سے قبل پی ایس اے کو منسوخ کرنے کے سابقہ احکامات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کرنے پر سرزنش کی۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ 'یہ کہنا کافی ہے کہ درخواست گذار کی احتیاطی نظر بندی یقینی طور پر گرچہ 'حقیقت' میں نہیں لیکن قانون میں بد دیانتی کی شکار ہے، حقیقت یہ ہے کہ ڈوزیئر اور نظر بندی کا حکم ایک ہی تاریخ کا ہے جو کہ 14 ستمبر 2022 ہے جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ درخواست گذار کی احتیاطی نظر بندی کا معاملہ پہلے ہی سوچی سمجھی ذہنیت کا نتیجہ ہے اور یہ کسی طرح در خواست گذار کو کسی مجرمانہ کیس میں سزا کے بغیر جیل میں بند رکھنا تھا۔

مزید پڑھیں: ہائی کورٹ نے نظر بندی کے حکم کو کالعدم قرار دیا


ایس ایس پی پلوامہ کے ڈوزئیر میں عرضی گزار کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور سرینگر صدر کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ایک وکیل کے طور قرار دیا'۔ڈوزیئر میں کہا گیا کہ عرضی گزار نے مصر کے عبدالقادی عودہ کے لٹریچر سے متاثر ہوکر جماعت اسلامی میں شرکت کی اور سال 1987 میں مسلم متحدہ محاز کے امیدوار کے طور پر پامپور حلقے سے اسمبلی الیکشن لڑا تھا۔

عدالت نے کہاکہ 'گرچہ عرضی گزار نے 25 لاکھ روپیے کے معاوضے کا دعویٰ کیا ہے تاہم عدالت کا موقف ہے کہ پانچ لاکھ روپیے کا معاوضہ انصاف کے مطابق ہے، عدالت درخواست گزار کی احتیاطی حراست کو غیر قانونی قرار دیتی ہے اور اس کو پانچ لاکھ روپیے کے معاوضے کا حقدار بھی قرار دیتی ہے جو جواب دہندگان کو فیصلے کے تاریخ سے تین ماہ کے اندر ادا کرنے ہیں'۔
(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.