سرینگر (جموں کشمیر): ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے ضلع ترقیاتی کمشنر (ڈی سی) سرینگر کو متعدد مندروں کی جائیداد کا کنٹرول سنبھالنے کا حکم دیا ہے۔ ان مندروں میں برزلہ علاقے کا رگھو ناتھ جی مندر بھی شامل ہے جو تقریباً 159کنال اراضی پر محیط ہے۔ اس مندر کے ایک حصہ پر مبینہ طور کشمیر بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں قیوم اور ان کے بھائیوں کا قبضہ ہے۔
منگل کے روز عدالت نے ڈی سی سرینگر کو ہدایت دی کہ وہ مختلف مندروں کی جائیدادوں، بشمول شری بجرنگ دیو دھرم داس جی مندر، ستھو بربر شاہ، سرینگر کی دیکھ بھال کریں اور ان کا انتظام سنبھالیں۔ اس اقدام کا مقصد ان جائیدادوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور بہتر طور پر دیکھ بھال کرنا مقصود ہے جو خاص طور پر 1990 کی دہائی میں شدت پسندی کے آغاز کے بعد غیر قانونی قبضے اور بدانتظامی کا شکار رہی ہیں۔
برزلہ میں واقع رگھو ناتھ جی مندر سے متعلق ایک کیس میں عدالت نے ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا کہ وہ 159 کنال سے زائد زمین کا قبضہ لے لیں، جس میں سے چھ کنال سے زیادہ زمین مبینہ طور پر میاں قیوم اور ان کے بھائیوں کے قبضے میں ہے۔ یہ حکم عدالت کی جانب سے مختلف درخواستوں کا جائزہ لینے کے بعد دیا گیا۔ درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ ان کے خاندان نے یہ زمین قانونی معاہدوں کے ذریعے 1960 اور 1970 کی دہائی میں حاصل کی تھی، لیکن عدالت نے نوٹ کیا کہ ریکارڈز ان دعووں کی حتمی طور پر تصدیق نہیں کرتے۔
عدالت نے ضلع ترقیاتی کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ ان جائیدادوں کا کنٹرول سنبھالیں اور کسی بھی قبضے کو قانونی طریقہ کار کے بعد ہٹایا جائے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ مندر کی آمدنی کو صرف مندر کی دیکھ بھال اور فلاحی کاموں کے لئے ہی استعمال کیا جائے۔ عدالت نے مزید ہدایت کی کہ ضلع کمشنر یا مقرر کردہ کمیٹی مندر کی زمینوں کی حد بندی کریں اور ریونیو ریکارڈز میں کسی بھی غیر قانونی اندراج کو درست کریں۔ یہ عارضی انتظام اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک حکومت جموں و کشمیر کے مذہبی اور فلاحی اداروں کے انتظام کے لیے مناسب قانون سازی نہیں کرتی۔ ڈویژن بنچ نے متعلقہ درخواست کو نمٹاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ ریونیو اور دیگر متعلقہ محکموں کے افسران کی ایک کمیٹی قائم کریں تاکہ روزانہ کی رسومات اور ان مندروں کے مجموعی انتظام کی نگرانی کی جا سکے۔ عدالت نے زور دیا کہ ان مندروں کی جائیدادیں کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہیں اور کوئی بھی فرد ان پر ملکیت یا انتظامی حقوق کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
عدالت نے مندر کی جائیدادوں پر بے جا قبضے اور غیر قانونی فروخت یا لیز کے معاملات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اُس دور میں جب مندر کے متولیوں نے انہیں چھوڑ دیا تھا۔ جسٹس سنجیو کمار اور جسٹس ایم اے چودھری پر مشتمل بنچ نے مشاہدہ کیا کہ مختلف مفاد پرست عناصر، بشمول خود ساختہ مہنتوں اور باباؤں نے اس صورت حال (شورش) کا غلط فائدہ اٹھایا اور اکثر و بیشتر مقامی لوگوں کی ملی بھگت سے۔
عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ تاریخی سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جائیدادیں غالباً اس وقت کے مہاراجہ نے مندروں کے نام وقف کی تھیں تاکہ ان کی آمدنی سے مندروں کی دیکھ بھال اور فلاحی سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔ تاہم، مناسب ریکارڈ کی عدم موجودگی نے ان جائیدادوں کے انتظام اور ملکیت پر تنازعات کو جنم دیا۔