ETV Bharat / jammu-and-kashmir

گردے کی پتھری سے بچنے کیلئے دو لیٹر سے زیادہ پانی پینا چاہیے: یورالوجسٹ ڈاکٹر تنویر اقبال - urologist Dr Tanvir Iqbal

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Apr 5, 2024, 1:11 PM IST

Updated : Apr 5, 2024, 5:54 PM IST

Kidney Stone Problems گردے کی پتھری کا مسئلہ بہت عام ہے۔ چھوٹے بچوں سے لیکر بڑوں تک اج کل کڈنی اسٹون کا معاملہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن کے مطابق ہر سال پانچ لاکھ سے زائد افراد کو گردے کی پتھری کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Etv Bharatinterview-with-renowned-kashmiri-urologist-dr-tanvir-iqbal-regarding-kidney-stone-formation-precaution-and-treatment
گردے کی پتھری سے بچنے کیلئے دو لیٹر سے زیادہ پانی پینا چاہیے: یورالوجسٹ ڈاکٹر تنویر اقبال
گردے کی پتھری سے بچنے کیلئے دو لیٹر سے زیادہ پانی پینا چاہیے: یورالوجسٹ ڈاکٹر تنویر اقبال

سرینگر: گردے کی پتھری یا کڈنی سٹون آج کل ایک عام معاملہ بنا ہوا ہے۔ اگر تکلیف چھوٹی سطح پر ہے تو یہ تکلیف زیادہ پریشان نہیں کرتا، لیکن جب کڈنی سٹون کا معاملہ سنگین ہوتا ہے تو انسان کا چین و سکون کھو جاتا ہے۔
گردے کی پتھری اصل میں ہے کیا، پتھری بننے کے وجوہات کیا ہیں، احتیاط اور علاج ہے کیا، اس سب پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے کشمیر کے معروف یورالوجسٹ ڈاکٹر تنویر اقبال سے خاص گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ گردے کی پتھری یا کڈنی سٹون ایک عام پتھر ہی طرح ہی ہوتا ہے، جو کہ عام طور ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ رینل کیلکولی گردے یا پیشاب کی نالی کے اندر سخت کرسٹل لائن معدنی مواد کی تشکیل کو کہتے ہیں۔ ایسے میں گردے کے پتھری کے کئی اقسام بھی ہیں،جن مں کیلشیم آکسیلیٹ پتھری، کیلشیم فاسفیٹ، یورک ایسڈ اورسسٹین کی پتھری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر تنویر اقبال نے کہا کہ اقسام کی بنیاد پر کسی کو بھی زیادہ یا کم خطرناک گردانا نہیں جاسکتا ہے ۔پتھری کی بیماری کتنی سنگین ہے۔اس کا پتہ تشخیص یا علامات کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے کہ جسم کے کس حصے کو سٹون نے متاثر کیا ہے یا پیشاب کی نالی کو کتنا اثر انداز کیا ہے۔کبھی کبھی ایک چھوٹی سی سٹون بھی پیشاب کی نالی کو بلاک کرتی ہے تو اس صورت میں چھوٹی پتھری بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے،جس کو بروقت علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کڈنی میں ہی سٹون عام طور بننے کی وجہ یہ ہے کہ گردے کا کام خون صاف کرنا اور پیشاب بنانا ہے۔ یہ آپ کے کھانے پینے کی تمام چیزوں میں سے زہریلے مادوں (ایک قسم کا فضلہ) کو نکالنے کا کام کرتا ہے، لیکن جب یہ زہریلا مواد گردے سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل پاتے تو آہستہ آہستہ جمع ہو کر پتھری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جو طبی اصطلاح میں گردے کی پتھری کہلاتی ہے۔
بات چیت کے دوران ڈاکٹر تنویر نے کہا کہ پتھری کئی وجوہات سے کڈنی میں بنتی ہے،جس میں ماحولیات اور کھان پان کے عمل دخل کے علاوہ جنیٹک فیکٹر بھی کارفرما ہے ۔ایسے میں گرمی اور خوش ماحول میں کام کرنے والے جیسے کہ نان وائی یا حلوائی اس بیماری سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں ۔یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ اگر فیملی میں کس ایک کو کڈنی میں پتھری بنتی ہے تو گھر کے دیگر افراد بھی مستقبل میں اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ کھانے پینے کے اداب پر یہ بیماری کافی انحصار رکھتی ہے۔
ڈاکٹر تنویر اقبال نے کہا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کے کڈنی اسٹون بننے کا احتمال زیادہ رہتا ہے کیونکہ مرد باہر الگ الگ ماحول میں کام کرتے ہیں جبکہ خواتین زیادہ تر گھروں میں ہی ہوتی ہیں ۔وہیں خواتین کے مقابلے مردوں میں پروٹین زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یورک ایسڈ بننے کا احتمال رہتا یے۔
علامات سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درد کے بغیر یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ اسے پتھری ہے یا نہیں ۔البتہ کبھی کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی مریض کسی دوسری بیماری کے کیے الٹراساونڈ وغیرہ کرتا ہے لیکن بعد میں اسے کڈنی میں پتھری کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وہیں کئی ایسے بیمار بھی پتھری سے متاثر ہوتے ہیں جنہیں پیشاب کم ہوجاتا ہے یا جن کے ہاتھ پیر پر ورم ظاہر ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:

علاج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گردے کی پتھری کا علاج ادویات کے علاوہ اور سرجری سے کیا جاتا ہے ۔ایسے میں تشخیص کے بعد پتھری کا سائز اور جگہ دیکھ کر ہی ماہر ڈاکٹر علاج کا تعین کرسکتا ہے۔ آیا پھتری سرجری سے باہر نکالی جائے یا ادویات سے ہی اس کا علاج عمل میں لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پتھری کی تشکیل کو روکنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو مناسب طور پر ہائیڈریٹ رکھیں۔ خاص طور پر سخت ورزش کے دوران ،سرد اور گرم موسم وغیرہ میں بھی۔ یہ پیشاب کو پتلا رکھنے اور کیلسیفائنگ ایجنٹوں کو جمع ہونے سے روکنے میں مدد کرتا ہے۔موٹے افراد میں یورک ایسڈ کی پتھری کو وزن میں کمی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

گردے کی پتھری سے بچنے کیلئے دو لیٹر سے زیادہ پانی پینا چاہیے: یورالوجسٹ ڈاکٹر تنویر اقبال

سرینگر: گردے کی پتھری یا کڈنی سٹون آج کل ایک عام معاملہ بنا ہوا ہے۔ اگر تکلیف چھوٹی سطح پر ہے تو یہ تکلیف زیادہ پریشان نہیں کرتا، لیکن جب کڈنی سٹون کا معاملہ سنگین ہوتا ہے تو انسان کا چین و سکون کھو جاتا ہے۔
گردے کی پتھری اصل میں ہے کیا، پتھری بننے کے وجوہات کیا ہیں، احتیاط اور علاج ہے کیا، اس سب پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے کشمیر کے معروف یورالوجسٹ ڈاکٹر تنویر اقبال سے خاص گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ گردے کی پتھری یا کڈنی سٹون ایک عام پتھر ہی طرح ہی ہوتا ہے، جو کہ عام طور ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ رینل کیلکولی گردے یا پیشاب کی نالی کے اندر سخت کرسٹل لائن معدنی مواد کی تشکیل کو کہتے ہیں۔ ایسے میں گردے کے پتھری کے کئی اقسام بھی ہیں،جن مں کیلشیم آکسیلیٹ پتھری، کیلشیم فاسفیٹ، یورک ایسڈ اورسسٹین کی پتھری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر تنویر اقبال نے کہا کہ اقسام کی بنیاد پر کسی کو بھی زیادہ یا کم خطرناک گردانا نہیں جاسکتا ہے ۔پتھری کی بیماری کتنی سنگین ہے۔اس کا پتہ تشخیص یا علامات کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے کہ جسم کے کس حصے کو سٹون نے متاثر کیا ہے یا پیشاب کی نالی کو کتنا اثر انداز کیا ہے۔کبھی کبھی ایک چھوٹی سی سٹون بھی پیشاب کی نالی کو بلاک کرتی ہے تو اس صورت میں چھوٹی پتھری بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے،جس کو بروقت علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کڈنی میں ہی سٹون عام طور بننے کی وجہ یہ ہے کہ گردے کا کام خون صاف کرنا اور پیشاب بنانا ہے۔ یہ آپ کے کھانے پینے کی تمام چیزوں میں سے زہریلے مادوں (ایک قسم کا فضلہ) کو نکالنے کا کام کرتا ہے، لیکن جب یہ زہریلا مواد گردے سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل پاتے تو آہستہ آہستہ جمع ہو کر پتھری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جو طبی اصطلاح میں گردے کی پتھری کہلاتی ہے۔
بات چیت کے دوران ڈاکٹر تنویر نے کہا کہ پتھری کئی وجوہات سے کڈنی میں بنتی ہے،جس میں ماحولیات اور کھان پان کے عمل دخل کے علاوہ جنیٹک فیکٹر بھی کارفرما ہے ۔ایسے میں گرمی اور خوش ماحول میں کام کرنے والے جیسے کہ نان وائی یا حلوائی اس بیماری سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں ۔یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ اگر فیملی میں کس ایک کو کڈنی میں پتھری بنتی ہے تو گھر کے دیگر افراد بھی مستقبل میں اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ کھانے پینے کے اداب پر یہ بیماری کافی انحصار رکھتی ہے۔
ڈاکٹر تنویر اقبال نے کہا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کے کڈنی اسٹون بننے کا احتمال زیادہ رہتا ہے کیونکہ مرد باہر الگ الگ ماحول میں کام کرتے ہیں جبکہ خواتین زیادہ تر گھروں میں ہی ہوتی ہیں ۔وہیں خواتین کے مقابلے مردوں میں پروٹین زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یورک ایسڈ بننے کا احتمال رہتا یے۔
علامات سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درد کے بغیر یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ اسے پتھری ہے یا نہیں ۔البتہ کبھی کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی مریض کسی دوسری بیماری کے کیے الٹراساونڈ وغیرہ کرتا ہے لیکن بعد میں اسے کڈنی میں پتھری کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وہیں کئی ایسے بیمار بھی پتھری سے متاثر ہوتے ہیں جنہیں پیشاب کم ہوجاتا ہے یا جن کے ہاتھ پیر پر ورم ظاہر ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:

علاج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گردے کی پتھری کا علاج ادویات کے علاوہ اور سرجری سے کیا جاتا ہے ۔ایسے میں تشخیص کے بعد پتھری کا سائز اور جگہ دیکھ کر ہی ماہر ڈاکٹر علاج کا تعین کرسکتا ہے۔ آیا پھتری سرجری سے باہر نکالی جائے یا ادویات سے ہی اس کا علاج عمل میں لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پتھری کی تشکیل کو روکنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو مناسب طور پر ہائیڈریٹ رکھیں۔ خاص طور پر سخت ورزش کے دوران ،سرد اور گرم موسم وغیرہ میں بھی۔ یہ پیشاب کو پتلا رکھنے اور کیلسیفائنگ ایجنٹوں کو جمع ہونے سے روکنے میں مدد کرتا ہے۔موٹے افراد میں یورک ایسڈ کی پتھری کو وزن میں کمی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

Last Updated : Apr 5, 2024, 5:54 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.