سرینگر: ’’انڈیا بلاک/ انڈیا اتحاد‘‘ کے ساتھ وابستہ سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور کانگریس - جموں کشمیر یونین ٹیریٹری کی پانچ نشستوں اور لداخ کی ایک نشست پر سیٹ شیئرنگ کے بارے میں بات چیت کر رہی ہیں، تاہم سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) صدر محبوبہ مفتی، جو کہ ’انڈیا الائنس‘ کی رکن بھی ہیں، کشمکش میں مبتلا ہیں۔
این سی اور کانگریس جموں و کشمیر میں سیٹیں شیئر کرنے پر راضی ہو گئے ہیں، لیکن این سی آنے والے پارلیمانی انتخابات میں پی ڈی پی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی ہے۔ این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ سیٹ شیئرنگ کے بارے میں دہلی میں کانگریس رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے دو بار سیٹ شیئرنگ پر بات کی لیکن ہر بار انہوں نے پی ڈی پی کو اس گفتگو سے باہر رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2019ء میں این سی نے ہی اننت ناگ، سرینگر اور بارہمولہ کی تین نشستیں اپنے نام کی تھیں، لہذا یہ نشستیں این سی کے پاس ہی رہنی چاہئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیاں تقریباً اس بات پر متفق ہو گئی ہیں کہ این سی سرینگر اور بارہمولہ کی دو نشستوں پر الیکشن لڑے گی، جبکہ کانگریس جموں اور ادھم پور سیٹ اور لداخ کی واحد سیٹ پر الیکشن لڑے گی۔ این سی اور کانگریس کے درمیان اننت ناگ - راجوری نشست ہی باعث گفتگو ہے، جس میں 14 لاکھ سے زائد ووٹرز ہیں اور جن میں اکثریت مسلم ووٹرز کی ہے۔ ’’انڈیا الائنس‘‘ کی تینوں پارٹیاں اننت ناگ - راجوری کو اپنا مضبوط گڑھ بتاتی ہیں۔
’انڈیا الائنس‘ کے ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، کانگریس اور این سی کی حمایت سے اننت ناگ - راجوری سیٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے زور دے رہی ہے، لیکن ’انڈیا الائنس‘ کے دونوں شراکت دار تذبذب کے شکار ہیں۔ دہلی میں کانگریس لیڈروں نے محبوبہ کو مشورہ دیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ان کی پارٹی کی کمزور پوزیشن کو دیکھتے ہوئے، انہیں این سی اور کانگریس کی حمایت کرنی چاہیے اور بعد میں انہیں راجیہ سبھا میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: این سی کے بعد کانگریس اور پی ڈی پی امیدواروں کے انتخاب کی دوڑ میں
’انڈیا بلاک‘ کے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ محبوبہ نے کہا ہے کہ جنوبی کشمیر ان کی پارٹی کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور پارٹی نے پچھلے دو اسمبلی انتخابات میں اکثر نشستیں جیتی ہیں۔ تاہم، 2022ء کی متنازعہ حد بندی کے بعد پلوامہ کی چار اور شوپیاں ضلع کی ایک اسمبلی سیٹ اننت ناگ - لوک سبھا نشست سے ہٹا دی گئیں اور راجوری اور پونچھ اضلاع کی سات سیٹیں اس میں شامل کر دی گئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے نیشنل کانفرنس اننت ناگ - راجوری پر دعویٰ نہیں کر سکتی ہے کیونکہ اس نے 2019ء میں یہ سیٹ اس وقت جیتی ہے جب پلوامہ اور شوپیاں اننت ناگ کا حصہ تھے۔
ایک سینئر کانگریس لیڈر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’حد بندی کے بعد اننت ناگ - راجوری کا انتخابی حساب و کتاب ہی بدل گیا ہے۔ زمینی صورتحال کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو ہوتا ہے کہ اننت ناگ - راجوری نشست پر کانگریس کو این سی اور پی ڈی پی سے زیادہ حمایت حاصل ہے اور اس منطق سے کانگریس کو سیٹ پر الیکشن لڑنا چاہیے۔‘‘
پانچ اگست 2019ء کے بعد پی ڈی پی کو کافی تنزلی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس وقت پارٹی کے 40 سے زائد رہنما اور درجنوں کارکن پارٹی چھوڑ کر اپنی پارٹی قام کر گئے۔ تاہم اس کے بعد سے بڑی تعداد میں نوجوان پارٹی میں شامل ہوئے ہیں لیکن پارلیمانی انتخابات میں ان کی واضح کامیابی کے امکانات کم ہی ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایک سینئر کانگریس لیڈر کا کہنا ہے کہ ’’محبوبہ مفتی دہلی میں کانگریس رہنماؤں سے بات چیت کر رہی ہیں، وہ (محبوبہ مفتی) دہلی میں کانگریس لیڈروں سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے اننت ناگ راجوری سیٹ پر الیکشن لڑنے کی تجویز پیش کی ہے۔ نہ تو نیشنل کانفرنس اور نہ ہی کانگریس اس تجویز سے اتفاق کر رہی ہیں کیونکہ پی ڈی پی کی موجودہ پوزیشن کے پیش نظر ایسا کرنا مشکل ہے۔ لیکن بڑے مفاد اور بی جے پی کو باہر رکھنے کے لیے، اتحاد میں شامل ہر جماعت کو لچک اور سمجھوتے کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔‘‘
پی ڈی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنما اور پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین سرتاج مدنی، پارٹی کی حمایت ظاہر کرنے اور کارکنوں سے مشورے لینے کے لیے 3 سے 8 مارچ تک راجوری اور پونچھ اضلاع کا دورہ کریں گے۔ پی ڈی پی نے پونچھ اور راجوری میں تین اسمبلی سیٹیں جیتی تھیں۔ چودھری ظفر (راجوری کے درہل سے)، شاہ محمد تنترے (پونچھ سے) اور چودھری قمر 2014ء کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی کے ٹکٹ پر جیتے تھے، لیکن یہ سبھی رہنما 2020ء میں اپنی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
پی ڈی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر اننت ناگ راجوری سیٹ پر ’انڈیا الائنس‘ میں کوئی بات نہیں بنتی ہے تو وہ اننت ناگ، سرینگر اور بارہمولہ کی تینوں نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ محبوبہ مفتی، این سی اور کانگریس کے خلاف الیکشن لڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ وہی ایک واحد رہنما ہیں جو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بی جے پی کے خلاف حزب اختلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا نعرہ اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم رہی ہیں۔
ایک سینئر صحافی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’وہ ایک اخلاقی کشمکش کا سامنا کر رہی ہیں، ان پر اتحاد اور اپنے دعویٰ کو نبھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کے خلاف پارلیمانی انتخابات لڑتی ہیں تو انہیں زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کے اتحاد کے دعوے خاک میں مل جائیں گے۔‘‘ تاہم، پی ڈی پی کے لیے کانگریس کے وقار رسول کی جانب سے ایک امید کی کرن جاگی ہے جنہوں نے کل یہ کہا تھا کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان سیٹ شیئرنگ پر بات چیت جاری ہے اور مارچ کے پہلے ہفتے تک اتحاد (انڈیا الائنس) امیدواروں کو حتمی شکل دے گا۔‘‘
اننت ناگ راجوری سیٹ ’انڈیا الائنس‘ کے لیے اور ساتھ ہی بی جے پی کے لیے بھی سب سے زیادہ تنازعہ کا باعث بن گئی ہے۔ کانگریس لیڈر کا مزید کہنا ہے کہ ’’یہ سیٹ انڈیا الائنس کے لیے ایک دلچسپ چیلنج ہے۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہوگا اور ایک اتحادی امیدوار کو نامزد کرکے مل جل کر اس کی حمایت کرنے ہوگی۔‘‘