سرینگر (جموں کشمیر) : وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد انہیں اپنی حکومت کے خلاف پہلا عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ جمعہ کو رکن پارلیمنٹ عبدالرشید شیخ (المعروف انجینئر رشید) نے سرینگر کی سڑکوں پر دربار موو کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ احتجاجی مارچ کیا۔
دربار موو، جو جموں و کشمیر کی دو دارالحکومتوں - سرینگر اور جموں - کے درمیان سرکاری دفاتر کی سالانہ منتقلی کی روایت تھی، کو سال 2020 میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جزوی طور پر معطل کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس منتقلی سے سالانہ 200 کروڑ روپے سے زائد کا خرچہ آتا ہے، جو سرکاری خزانے پر ایک بوجھ ہے۔
انجینئر رشید اور ان کی پارٹی، عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی)، کے کارکنوں نے جمعہ کو سول سیکریٹریٹ - جہاں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور ان کے کابینہ کے وزرا کام کرتے ہیں، تک ایک احتجاجی مارچ نکالا۔
انجینئر رشید نے کہا: ’’ہم عمر عبداللہ صاحب کو ان کا وعدہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ حکومت سازی کے بعد انہوں نے دربار موو کی روایت کو بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ہمیں بتایا جائے کہ جموں و کشمیر کا دارالحکومت جموں ہے یا سرینگر؟ عوام کو یہ تک معلوم نہیں کہ انہیں سرکاری کام کے لیے کہاں جانا ہے، سرینگر یا جموں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یا تو دربار موو کو بحال کیا جائے یا سرینگر کو مستقل دارالحکومت بنایا جائے۔
نیشنل کانفرنس نے اپنی منشور میں دربار موو کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ اور اقتدار سنبھالنے کے بعد، عمر عبداللہ اور ان کی کابینہ نے اسے بحال کرنے کا عندیہ دیا، مگر 24 اکتوبر کو جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (جی اے ڈی) نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس میں تمام سیکریٹریز اور محکموں کے سربراہوں کو 11 نومبر سے جموں میں دفاتر فعال کرنے کی ہدایت دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: Abolished costly darbar move says LG عہدہ سنبھالتے ہی میں نے مہنگے دربار موو کو ختم کیا، منوج سنہا