سرینگر (جموں کشمیر): نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں کشمیر میں نو منتخب حکومت کے قیام کے بعد عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین حملوں میں تیزی آئی ہے جس سے شک و شبہات ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ان حملوں کی آزادانہ طور تحقیقات کی جانی چائیے۔ ہفتےکے روز انہوں نے کہا: ’’مجھے شک ہے کہ حکومت سازی سے قبل اس طرح عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان مسلح جھرپے کیوں نہیں بڑھی؟ ایسے میں اس حوالے سے آزادانہ تحقیقات ہونی چائیے اور یہ پتہ لگایا جانا چائیے کہ یہ کون کروا رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’مجھے شک ہے کہ اس طرح کے واقعات سے عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے سرینگر کے خانیار علاقے میں پھنسے عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے بجائے انہیں گرفتار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ’’انہیں یہ جاننے کے لیے گرفتار کیا جانا چاہیے کہ آیا عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کسی ایجنسی کو کام سونپا گیا ہے؟‘‘
فاروق عبداللہ نے مزید کہا کہ ’’ایک جانب جہاں جموں وکشمیر میں سیاحتی شعبہ فروغ پا رہاہے ہے اور لوگ اپنا کاروبار کر رہے ہیں، وہیں دوسری جانب اچانک سے عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اسی لیے میں تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہوں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں حکومت کی تشکیل کے بعد کشمیر میں غیر ریاستی مزدوروں پر حملے کے واقعات کے علاوہ عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین حملوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ ادھر، رکن پارلیمان آغا سید روح اللہ مہدی نے بھی خطے میں تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی جموں وکشمیر کے سیکورٹی معاملات کو از خود دیکھ رہی ہے، ایسے میں انہیں جواب دینا ہوگا۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: کشمیر کی سیاست: غیر یقینی کے دور میں عبداللہ خاندان کی واپسی