سرینگر (جموں و کشمیر) : جموں کشمیر اینڈ لداخ ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ وہ افراد جو براہ راست (کسی بھی محکمہ میں) بھرتی کیے جاتے ہیں، اور ان کی تقرری / پروموشن محکمانہ لاپروائی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے، وہ پچھلی تاریخوں سے ہی تقرری اور ترقی/ پروموشن کے حقدار ہوں گے، جس تاریخ کو اسی تقرری کے عمل سے دیگر امیدواروں کی تقرری عمل میں لائی گئی ہو۔ یعنی محکمہ کی غفلت شعاری یا لاپروائی کسی بھی ملازم کی ترقی میں مانع نہیں ہو سکتی۔
جسٹس جاوید اقبال وانی نے زور دیا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ کسی بھی شخص کو انتظامی تاخیر کی وجہ سے نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اگر کسی امیدوار کی تقرری محکمانہ غلطیوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو اس امیدوار کو ان ہم عصر افراد کے مقابلے میں نقصان نہیں پہنچنا چاہیے جن کی تقرری وقت پر ہو گئی تھی۔
اس کیس میں ڈاکٹر آفاق احمد خان شامل تھے، جنہوں نے 2015 میں شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (SKIMS) میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کے لیے درخواست دی تھی۔ اگرچہ انہیں منتخب کیا گیا تھا تاہم ان کی تقرری ان کے نشانات کی غلط تشخیص کی وجہ سے 27 نومبر 2019 تک تاخیر کا شکار ہو گئی، جبکہ ان کے ہم عصر افراد کی تقرری اکتوبر 2018 میں ہو گئی تھی۔ خان نے اپنی تقرری اور ترقی کی اہلیت کو اپنے ہم عصر افراد کے مطابق پچھلی تاریخ سے نافذ کرنے کی درخواست کی تھی۔ SKIMS نے ابتدائی طور پر ترقی کے لیے حامی بھرتی تھی تاہم بعد ازاں انہیں ناکافی سروس مدت کی بنا پر ترقی کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ جس کے بعد خان نے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
خان، جن کی نمائندگی ایڈوکیٹ صالح پیرزادہ کر رہے تھے، نے اس فیصلے کو یہ دلیل دیتے ہوئے کورٹ میں چیلنج کیا کہ تاخیر ان کی ذاتی غلطی نہیں تھی اور اس سے ان کی سینارٹی اور ترقی کے امکانات متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ عدالت نے ان کے کیس کی حمایت کی، اور سپریم کورٹ کے ایک کیس ’’سی جیاچندرنC. Jayachandran مبقابلہ ریاست کیرالا‘‘ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے خان کی تقرری کو 3 اکتوبر 2018 سے نافذ کرنے کا حکم دیا اور ان کی سینارٹی اور ترقی کی اہلیت کو بحال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ماضی کے 'گھریلو تشدد' کو طلاق یا علیحدگی سے کالعدم نہیں کیا جا سکتا: ہائی کورٹ - JK High Court on Domestic Violence