سرینگر: میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق آج مسلسل تیسرے جمعہ بھی گھر پر نظر بند رہے۔ جس کے سبب وہ مرکزی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کا خطبہ نہیں دے سکے۔ ایسے میں میرواعظ نے اپنے ایک بیان میں انہیں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکے جانے کی غیر اعلانیہ اور غیر قانونی نظر بندی کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ میرواعظ نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ جب حکومت کے سربراہ نے میڈیا میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک ”آزاد آدمی“ ہیں تو انہیں پھر حراست میں کیوں رکھا گیا ہے؟ اور میری آزادانہ نقل و حمل کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جارہی ہے جب کہ نظر بندی کے عمل کو نجی طور پر نافذ کیا جاتا ہے اور عوام میں اس کی تردید بھی کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مجھ سے کئی اہم مہمانوں خاص طور پر میڈیا کو بھی ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نظر بندی سے مستقل رہائی کے لیے عدالت میں دائر عرضداشت کی سنوائی کے لیے پھر سے رجوع کر رہے ہیں۔ میرواعظ نے کہا کہ جب جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آنے اور رات دن امن کے دعوے مشتہر کیے جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ انہیں پھر گھر میں نظر بند کیوں رکھا جاتا ہے اور ادھر اُدھر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔انہوں نے کہا کہ بار بار گھر میں نظربندیاں میرواعظ کی حیثیت سے میری ذمہ داریاں اور ملی و سماجی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور ایک عوامی شخصیت ہونے کے ناطے مجھے لوگوں سے سماجی سطح پر ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے بھی روکا جاتا ہے جو حد درجہ افسوسناک ہے۔
ادھر میرواعظ نے محمد شفیع پنڈت کے انتقال پر بھی تعزیت پیش کی اور مرحوم کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ میرواعظ نے کہا کہ مرحوم محمد شفیع پنڈت ایک فعال اور متحرک بیوروکریٹ تھے جو جموں و کشمیر کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے پورے کیریئر میں زبردست متحرک رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ خدمت خلق اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرتے رہے۔ ایسے لوگ معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔
میر واعظ نے اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے جنت میں اعلیٰ مقام کی دعا کی اور سوگوار خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ میرواعظ نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ وہ گھر میں نظربند ہونے کی وجہ سے نہ تو مرحوم کی نماز جنازہ میں شرکت کر سکے اور نہ ہی ان کے خاندان کے ساتھ ذاتی طور پر تعزیت اور تسلیت پیش کرسکے۔