سرینگر: ایک منفرد پہل کے تحت سعدیہ ایمان اور اس کے شوہر عادل اکرم وانی نے ٹراؤٹ مچھلی کو عام کرنے اور خود روزگار کمانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرنے کی چاہ لیے سرینگر کے مضافاتی علاقے ہارون میں" موٹین ٹراؤٹ" کے نام سے ایک فش فارم قائم کیا ہے۔
6 کنال اراضی پر محیط شہر سرینگر کا مچھلی فارم اپنی نوعیت ایسا پہلا نجی رینبو ٹراؤٹ فارم ہے اور گزشتہ 4 برس میں اس ٹراؤٹ فارم میں تقریباً 20 ٹن پچھلیوں کی پیداوار حاصل کی گئی ہے۔
28 سالہ عادل نے انجینئرنگ کی ہے اور 26 سالہ سعدیہ جوکہ اصل میں بنگلور کی ہے آرگینک کیمسٹری میں ماسٹر کرچکی ہے۔ ازدواجی زندگی بندھنے کے بعد دنوں نے نجی یا سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے خود روزگار کمانے کا فیصلہ کیا۔ ایسے میں 2019 میں دونوں نے فش فارم دو ریس ویز سے شروع کیا اور آج کی تاریخ میں اس فش فارم میں تقریباً 20 ریس ویز ہیں جن سے وافر مقدار میں ٹراؤٹ مچھلیوں کی افزائش کی جاتی ہے۔
اس فش فارم کو قائم کرنے میں سعدیہ اور عادل کو محکمہ ماہی پروری کا بھر پور تعاون حاصل رہا۔ دستیاب اسکیم کے تحت دی جانی والی سبسڈی کے علاوہ انہیں ماہرین کی رہبری اور رہنمائی بھی حاصل رہی،جس کے نتیجے میں انہیں سالانہ اچھی خاصی پیدوار حاصل ہورہی ہے۔
ایسے میں اب یہ نہ صرف یہاں روایتی طور ٹراؤٹ کی افزائش عمل میں لائی جاتی ہیں بلکہ فارم کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے اب جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر رینبو ٹراؤٹ مچھلیوں کی پیداوار کو مزید بڑھایا جارہا ہے۔
موٹین ٹراؤٹ فارم کے ذریعے ہارون اور اس کے متصل علاقوں کے لوگوں کے لیے ٹراؤٹ ملنا آسان ہوگیا، وہیں شہر سرینگر کے کئی ریستوران اور ہوٹلوں کو بھی یہی سے راینبو ٹراؤٹ مچھلیاں سپلائی کی جاتی ہے اور دن بدن ان کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہورہا ہے۔سعدیہ اور عادل کہتے ہیں کہ اس کاروبار کا مقصد کشمیر میں ٹراؤٹ کلچر کو فروغ دینے کے علاوہ ٹراؤٹ کو ملک کے دیگر حصوں تک پہنچانا بھی ہے۔
مزید پڑھیں: ٹراوٹ مچھلی پالن میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے عاشق حسین میر
مچھلی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ان غذاؤں میں شامل ہے جو صحت مند کہلا جاتی ہے ایسے میں اگر رینبو ٹراؤٹ مچھلی کی بات کی جائے تو یہ ایسی منفرد مچھلیوں میں شمار کی جاتی ہے جو کہ ذائقہ سے بھر پور ہوتی ہے۔
ایک وقت میں رینبو نایاب مچھلی مانی جاتی تھی، کیونکہ ان مچھلیوں کی افزائش محکمہ فشریز کے چند فارموں تک ہی محدود تھی، لیکن آج رینبو نہ صرف نجی فارموں میں دستیاب ہے بلکہ اب یہ بازار میں بھی بہ آسانی دستیاب ہونی لگی ہے۔وہیں فش فارمنگ سے کشمیر میں روزگار کے نئے وسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔