ETV Bharat / jammu-and-kashmir

لداخ میں نئے اضلاع کا اعلان قیام ریاست کے مطالبے کو کمزور کرنا ہے: سابق وزیر - CHERING DORJEY LAKROOK

لداخ کے سرکردہ سیاسی رہنما اور سابق متحدہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیر چھرینگ دورجے لکروک نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے پانچ نئے اضلاع کا اعلان خوش آئیند تو ہے لیکن یہ محض اشک شوئی ہے ۔ ان کے مطابق اس منصوبے پر عملدرآمد میں کئی مسائل ہیں۔ ان کے مطابق لداخ کو ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔

چھرینگ دورجے لکروک
چھرینگ دورجے لکروک (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 25, 2024, 6:57 PM IST

لیہہ: لیہہ ایپکس باڈی کے نائب صدر اور سابق وزیر چھرینگ دورجے لکروک نے ای ٹی وی بھارت کی نامہ نگار رینچن انگمو چومکچھن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ مرکزی حکومت نے پانچ نئے اضلاع کا اعلان کرکے لداخ میں ریاست کے قیام کے مطالبے کی شدت کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ انکے مطابق لداخ خطے کے مسائل میں چھٹے شیڈول میں شمولیت اور ریاست کی بحالی سرفہرست ہیں جبکہ روزگار اور ماحولیات کے مسائل بھی حد درجہ اہم ہیں۔ ذیل میں انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔

سوال۔ آپ کیسے سوچتے ہیں کہ نئے اضلاع کے اعلان سے لداخ میں زمینی سطح پر چیزیں بدل جائیں گی؟

دورجے: لوگوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، چاہے وہ گاؤں والے ہوں یا سیاسی پارٹیاں۔ لیکن دوسری طرف، بہت سی چیزیں واضح نہیں ہیں، مثلاً، زنسکار کی مانگ بہت حقیقی ہے کیونکہ یہ علاقہ سردیوں میں 6 ماہ تک ضلعی ہیڈکوارٹر سے منقطع رہتا ہے اور یہ ضلع ہیڈ کوارٹر سے 240 کلومیٹر دور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زنسکار کی علیحدہ کونسل ہوگی، کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں اس کے صرف تین کونسلر ہیں۔ زنسکار کے لیے الگ ضلع کا اعلان کرنے کے بعد بھی اگر وہ زنسکار کو کرگل، ہل کونسل کے ساتھ رکھنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو اس کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ کیونکہ لداخ میں جو بھی ترقی ہوتی ہے وہ صرف کونسل کے ذریعے ہوتی ہے۔ فنڈنگ اور ترقی سے متعلق تمام فیصلے ایل اے ایچ ڈی سی کرگل کرے گا۔ تو اس صورت میں زنسکار کے لوگوں کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

سوال: نئے ضلع کی تشکیل کے کیا فوائد ہوں گے؟

دورجے: ملازمت یا روزگار کے معاملے میں، بہت سارے مواقع صرف اس صورت میں دستیاب ہوں گے جب وہ بھرتی کے قوانین کے مسودے کو تیار کرنےمیں تیزی لائیں گے۔ معاملہ یہ ہے کہ آج زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر وہ ملازمت کیلئے جگہیں تیار کرکے بھرتی کریں گے تو اس کا فائدہ ہوگا، ورنہ اگر وہ آؤٹ سورسنگ اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر لوگوں کو بھرتی کریں گے تو اس کا مقامی امیدواروں کو کوئی فائدہ نہیں، تب امیدواروں کو زیادہ عمر کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یونین ٹریٹری انتظامیہ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ بھرتی کے قواعد وضع نہیں کرسکی ہے، پبلک سروس کمیشن کا کہیں وجود ہی نہیں ہے اور آسامیاں پیدا نہ کرنا ایک بڑی ناکامی ہے۔ دوسرا، ریزرویشن کے معاملے پر کوئی بات واضح نہیں ہے۔ ہم شیڈول ٹرائب سے تعلق رکھتے ہیں، اس میں ریزرویشن ہونا چاہیے۔ فی الحال، ہمیں لداخ کا رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے (جو صرف نان گزیٹڈ پوسٹوں کے لیے ہے) لیکن کل اگر کوئی اسے عدالت میں چیلنج کرتا ہے، تو یہ کالعدم ہو سکتا ہے اور اس پر انحصار کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک کہ ہمیں چھٹے شیڈول کے تحت ریزرویشن نہیں مل جاتا ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ حکومت اضلاع کے قیام سے متعلق فیصلہ جلد از جلد نافذ کرے۔ ملازمتوں کی جگہیں پیدا کرنے سے قبل حکومت کو تمام انفراسٹرکچر قائم کرنا چاہیے، جس کے لیے بہت زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہوگی۔ اسکے بعد اور دیگر چیزیں سیٹ کریں اور آخر میں تقرریاں عمل میں لائیں۔ اس عمل کے بعد ہی انہیں فعال ضلع کہہ سکتے ہیں۔ تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ یونین ٹریٹری کا ابھی تک اپنا بنیادی ڈھانچہ نہیں بنا ہے۔ یہ کونسل سیکرٹریٹ میں چلایا جاتا ہے۔ اسکے جملہ ملازمین بھی ہل کونسل کے ہیں یہاں تک کہ درجہ چہارم کے ملازمین بھی۔ اگر نئے سیٹ اپ میں اس قسم کی بات ہوتی ہے تو یہ عوام کے لیے محض ایک اشک شوئی ہے باقی کچھ نہیں۔

لداخ میں سب سے بڑی خرابی فنڈنگ کے حوالے سے ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو فنڈنگ ہوتی ہے اس پر صرف دس فیصد اصراف کا حق ہل کونسل کو ہے اور عوام کو اس پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت سی شکایات ہیں کہ تمام فیصلے بیوروکریٹس مقامی لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کرتے ہیں۔

سوال: لداخ میں ان 5 نئے اضلاع کے اعلان کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

دورجے: میں اسے ریاست کا درجہ اور چھٹے شیڈول کے مطالبے کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہوں، اگر ایسا ہے تو حکومت کا نظریہ صحیح نہیں ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ ہمیں 'دہلی چلو آندولن' کے لیے کافی حمایت مل رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ضلع سے مطمئن نہیں ہیں۔ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ جب تک ہمیں ریاست کا درجہ اور چھٹا شیڈول نہیں ملتا ہمارا بڑا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ تحفظ کے بغیر لداخ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خدشات بجا ہیں۔ ایک یہ ہے کہ لداخ میں بہت سے منصوبے آرہے ہیں، مثال کے طور پر مشرقی لداخ میں سپنگ سکیانچو تھانگ میں، سولر پروجیکٹ کے لیے بہت زیادہ زمین دی گئی ہے اور اس پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔ حال ہی میں، میں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پتہ چلا کہ بہت سے مویشیوں اور جنگلی حیات کا انحصار اس اراضی پر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ تمام مویشی اور جنگلی حیات کہاں جائیں گے اور ان کا کیا بنے گا۔ وہ اس منصوبے کو 2 سال میں مکمل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اگر اس قسم کی ترقی ہوتی ہے تو ہمیں اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے کہ کس قسم کا منصوبہ بنایا جارہا ہے اور اسے کس جگہ پر عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس سولر پروجیکٹ کی جگہ وہ علاقہ ہے جہاں ہم پشمینہ پیدا کرتے ہیں اور لداخ کی معیشت اور لداخ کے لوگوں کے ذریعہ معاش کا انحصار اس پر ہے۔ اب اگر اس وسیع و عریض اراضی پر سولر پینل لگائے جائیں گے تو وہاں کے مویشی کہاں جائیں گے۔ جن کی روزی روٹی کا انحصار اس زمین اور اس پر پلنے والے مویشیوں پر ہے، وہ کہاں جائیں گے۔ یہ تو سوچنے والی بات ہے۔
یہ بھی پڑھیں:

لیہہ: لیہہ ایپکس باڈی کے نائب صدر اور سابق وزیر چھرینگ دورجے لکروک نے ای ٹی وی بھارت کی نامہ نگار رینچن انگمو چومکچھن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ مرکزی حکومت نے پانچ نئے اضلاع کا اعلان کرکے لداخ میں ریاست کے قیام کے مطالبے کی شدت کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ انکے مطابق لداخ خطے کے مسائل میں چھٹے شیڈول میں شمولیت اور ریاست کی بحالی سرفہرست ہیں جبکہ روزگار اور ماحولیات کے مسائل بھی حد درجہ اہم ہیں۔ ذیل میں انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔

سوال۔ آپ کیسے سوچتے ہیں کہ نئے اضلاع کے اعلان سے لداخ میں زمینی سطح پر چیزیں بدل جائیں گی؟

دورجے: لوگوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، چاہے وہ گاؤں والے ہوں یا سیاسی پارٹیاں۔ لیکن دوسری طرف، بہت سی چیزیں واضح نہیں ہیں، مثلاً، زنسکار کی مانگ بہت حقیقی ہے کیونکہ یہ علاقہ سردیوں میں 6 ماہ تک ضلعی ہیڈکوارٹر سے منقطع رہتا ہے اور یہ ضلع ہیڈ کوارٹر سے 240 کلومیٹر دور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زنسکار کی علیحدہ کونسل ہوگی، کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں اس کے صرف تین کونسلر ہیں۔ زنسکار کے لیے الگ ضلع کا اعلان کرنے کے بعد بھی اگر وہ زنسکار کو کرگل، ہل کونسل کے ساتھ رکھنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو اس کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ کیونکہ لداخ میں جو بھی ترقی ہوتی ہے وہ صرف کونسل کے ذریعے ہوتی ہے۔ فنڈنگ اور ترقی سے متعلق تمام فیصلے ایل اے ایچ ڈی سی کرگل کرے گا۔ تو اس صورت میں زنسکار کے لوگوں کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

سوال: نئے ضلع کی تشکیل کے کیا فوائد ہوں گے؟

دورجے: ملازمت یا روزگار کے معاملے میں، بہت سارے مواقع صرف اس صورت میں دستیاب ہوں گے جب وہ بھرتی کے قوانین کے مسودے کو تیار کرنےمیں تیزی لائیں گے۔ معاملہ یہ ہے کہ آج زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر وہ ملازمت کیلئے جگہیں تیار کرکے بھرتی کریں گے تو اس کا فائدہ ہوگا، ورنہ اگر وہ آؤٹ سورسنگ اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر لوگوں کو بھرتی کریں گے تو اس کا مقامی امیدواروں کو کوئی فائدہ نہیں، تب امیدواروں کو زیادہ عمر کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یونین ٹریٹری انتظامیہ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ بھرتی کے قواعد وضع نہیں کرسکی ہے، پبلک سروس کمیشن کا کہیں وجود ہی نہیں ہے اور آسامیاں پیدا نہ کرنا ایک بڑی ناکامی ہے۔ دوسرا، ریزرویشن کے معاملے پر کوئی بات واضح نہیں ہے۔ ہم شیڈول ٹرائب سے تعلق رکھتے ہیں، اس میں ریزرویشن ہونا چاہیے۔ فی الحال، ہمیں لداخ کا رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے (جو صرف نان گزیٹڈ پوسٹوں کے لیے ہے) لیکن کل اگر کوئی اسے عدالت میں چیلنج کرتا ہے، تو یہ کالعدم ہو سکتا ہے اور اس پر انحصار کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک کہ ہمیں چھٹے شیڈول کے تحت ریزرویشن نہیں مل جاتا ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ حکومت اضلاع کے قیام سے متعلق فیصلہ جلد از جلد نافذ کرے۔ ملازمتوں کی جگہیں پیدا کرنے سے قبل حکومت کو تمام انفراسٹرکچر قائم کرنا چاہیے، جس کے لیے بہت زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہوگی۔ اسکے بعد اور دیگر چیزیں سیٹ کریں اور آخر میں تقرریاں عمل میں لائیں۔ اس عمل کے بعد ہی انہیں فعال ضلع کہہ سکتے ہیں۔ تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ یونین ٹریٹری کا ابھی تک اپنا بنیادی ڈھانچہ نہیں بنا ہے۔ یہ کونسل سیکرٹریٹ میں چلایا جاتا ہے۔ اسکے جملہ ملازمین بھی ہل کونسل کے ہیں یہاں تک کہ درجہ چہارم کے ملازمین بھی۔ اگر نئے سیٹ اپ میں اس قسم کی بات ہوتی ہے تو یہ عوام کے لیے محض ایک اشک شوئی ہے باقی کچھ نہیں۔

لداخ میں سب سے بڑی خرابی فنڈنگ کے حوالے سے ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو فنڈنگ ہوتی ہے اس پر صرف دس فیصد اصراف کا حق ہل کونسل کو ہے اور عوام کو اس پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت سی شکایات ہیں کہ تمام فیصلے بیوروکریٹس مقامی لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کرتے ہیں۔

سوال: لداخ میں ان 5 نئے اضلاع کے اعلان کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

دورجے: میں اسے ریاست کا درجہ اور چھٹے شیڈول کے مطالبے کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہوں، اگر ایسا ہے تو حکومت کا نظریہ صحیح نہیں ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ ہمیں 'دہلی چلو آندولن' کے لیے کافی حمایت مل رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ضلع سے مطمئن نہیں ہیں۔ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ جب تک ہمیں ریاست کا درجہ اور چھٹا شیڈول نہیں ملتا ہمارا بڑا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ تحفظ کے بغیر لداخ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خدشات بجا ہیں۔ ایک یہ ہے کہ لداخ میں بہت سے منصوبے آرہے ہیں، مثال کے طور پر مشرقی لداخ میں سپنگ سکیانچو تھانگ میں، سولر پروجیکٹ کے لیے بہت زیادہ زمین دی گئی ہے اور اس پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔ حال ہی میں، میں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پتہ چلا کہ بہت سے مویشیوں اور جنگلی حیات کا انحصار اس اراضی پر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ تمام مویشی اور جنگلی حیات کہاں جائیں گے اور ان کا کیا بنے گا۔ وہ اس منصوبے کو 2 سال میں مکمل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اگر اس قسم کی ترقی ہوتی ہے تو ہمیں اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے کہ کس قسم کا منصوبہ بنایا جارہا ہے اور اسے کس جگہ پر عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس سولر پروجیکٹ کی جگہ وہ علاقہ ہے جہاں ہم پشمینہ پیدا کرتے ہیں اور لداخ کی معیشت اور لداخ کے لوگوں کے ذریعہ معاش کا انحصار اس پر ہے۔ اب اگر اس وسیع و عریض اراضی پر سولر پینل لگائے جائیں گے تو وہاں کے مویشی کہاں جائیں گے۔ جن کی روزی روٹی کا انحصار اس زمین اور اس پر پلنے والے مویشیوں پر ہے، وہ کہاں جائیں گے۔ یہ تو سوچنے والی بات ہے۔
یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.