سرینگر (جموں کشمیر) : پیر کو پارلیمنٹ کے ایک قابل ذکر لمحے میں سرینگر لوک سبھا حلقہ سے نومنتخب ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی نے کشمیری زبان میں حلف اٹھایا، جس کے ذریعے انہوں نے جموں و کشمیر کے ادبی ورثے کو اجاگر کیا۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (این سی) کی نمائندگی کرتے ہوئے مہدی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کے وحید پرہ اور جموں اور کشمیر اپنی پارٹی (JKAP) کے محمد اشرف میر کو شکست دے کر سرینگر نشست پر حاصل کی۔
آغا روح اللہ مہدی کا مادری (کشمیری) زبان میں حلف لینے کا انتخاب بھارت کی ثقافتی اور لسانی تنوع کو اجاگر کرنے کی اور ایک اہم اور مثبت اشارہ تھا۔ مہدی نے ان الفاظ میں حلف لیا: ’’بہء۔ آغا سید روح اللہ مہدی، یوس لوک سبھا ہند ممبر منتخب کرنہء آس، چھس خداوند تعالا سندس ناوَس پیٹھ حلف تُلان۔‘‘ آغا روح اللہ کی جانب سے کشمیر کے منفرد ثقافتی ورثے کو قومی اسٹیج فراہم کرنے سے اور کشمیری زبان میں حلف لینے سے پارلیمنٹ گونج اٹھا۔ لسانی فخر کے اس مظاہرے میں مہدی کے ساتھ اننت ناگ - راجوری حلقہ سے نومنتخب ممبر پارلیمنٹ میاں الطاف احمد لاروی بھی شامل رہے، انہوں نے جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اردو میں حلف لینے کا انتخاب کیا۔
حلف برداری کی اس تقریب میں لسانی آمیزش دیکھنے کو ملی۔ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ہندی کا انتخاب کیا۔ مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن نے ہندوستان کی قدیم زبان سنسکرت میں حلف لیا۔ مہدی کے کشمیری میں بات کرنے کے فیصلے کی سوشل میڈیا پر سخت پذیرائی ہوئی۔ متعدد کشمیریوں نے مہدی کی ستائش کی اور اس بات پر فخر کا اظہار کیا۔ ان 18ویں لوک سبھا کے افتتاحی اجلاس کے دوران ثقافتی شناخت خاص کر کشمیری زبان میں حلف برداری کو مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔
مہدی کی پوسٹ کے جواب میں، سماجی رابطہ گاہ ایکس پر عادل کشمیری نامی ایک صارف نے ریمارکس دیے: ’’یہ شاندار ہے کہ آپ نے اپنی مادری زبان میں حلف اٹھایا۔ مبارک ہو!‘‘ ایک اور صارف ثاقب فیاض نے اظہار خیال کیا، ’’ہم اپنی وادی کے لیے مضبوط قیادت اور نمائندگی کے لیے پر امید ہیں۔‘‘
تاہم عبد الرشید شیخ جنہیں عرف عام میں انجینئر رشید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو بارہمولہ حلقہ سے نو منتخب رکن اسمبلی ہے، نے آج اپنا حلف نہیں اٹھایا۔ عوامی اتحاد پارٹی کے رہنما انجینئر رشید اس وقت ’’عسکریت پسندوں کی مالی معاونت‘‘ کے معاملے میں دہلی کے تہاڑ جیل میں بند ہے۔ اپنی قید کے باوجود انجینئر رشید نے بارہمولہ سیٹ پر ووٹوں کے نمایاں فرق سے کامیابی حاصل کی اور نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے چیرمین سجاد لون کو شکست دی۔
دریں اثنا، عمر عبداللہ، جو جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور این سی کے نائب صدر ہے، نے ملے جلے جذبات کو شیئر کرتے ہوئے ایکس پر کہا: ’’آج لوک سبھا میں اپنی پارٹی (نیشنل کانفرنس) کے ساتھیوں کو حلف اٹھاتے ہوئے دیکھنا (میرے لئے) کافی مشکل ہے۔ ایسے ملے جلے جذبات۔۔۔ مجھے ان کی جیت اور انہیں جموں و کشمیر کے لوگوں کی خدمت کرنے کا موقع ملنے پر فخر محسوس ہو رہا ہے۔ تاہم میں اس بات سے کافی دلبرداشتہ ہوں کہ شمالی کشمیر کے لوگوں کی (پارلیمنٹ میں) نمائندگی نہیں کر پاؤں گا۔۔۔۔ مگر۔ زندگی (یوں ہی) چلتی رہے گی۔‘‘