نئی دہلی: بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں کے زبردست مظاہروں اور تشدد کے بعد 76 سالہ عوامی لیگ کی رہنما شیخ حسینہ کو وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔ فی الحال وہ سخت سکیورٹی کے درمیان دہلی کے ایک محفوظ مقام پر مقیم ہیں۔ ان کی بہن شیخ ریحانہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہونے والی اس پیش رفت کو جنوبی ایشیا میں بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈھاکہ میں سیاسی بدامنی بین الاقوامی برادری کے لیے شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے کیونکہ شیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد دیگر ملکوں کے جغرافیائی سیاسی مفادات بھی سامنے آرہے ہیں۔
شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے بدھ کو کہا کہ بنگلہ دیش میں غیر یقینی کی فضا ہے۔ پولیس اپنی ڈیوٹی سے پوری طرح پیچھے ہٹ گئی ہے کیونکہ ان پر حملہ کیا جا رہا تھا۔ سرحدی سکیورٹی فورسز حفاظت کو یقینی بنانے کی کچھ کوشش کر رہے ہیں، لیکن ڈھاکہ کے باہر تشدد اب بھی جاری ہے، خاص طور پر ہماری پارٹی کے رہنماؤں اور اقلیتوں کے ساتھ۔ سجیب نے کہا کہ طلباء نے مبینہ طور پر اعلان کیا کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کریں گے، لیکن وہ ہر جگہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ نئی دہلی میں ہیں اور فی الحال کہیں اور جانے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ ہماری پارٹی کے رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔ ہم نے شروع میں فیصلہ کیا تھا کہ ہم سیاست چھوڑ دیں گے، لیکن چونکہ ہماری پارٹی کے لوگوں پر حملے ہو رہے ہیں، اس لیے ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی پڑی۔ ہم انہیں ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔ آئینی طور پر شیخ حسینہ نے کبھی استعفیٰ نہیں دیا کیونکہ انہیں ایسا کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا، اس لیے یہ ایک آئینی مسئلہ ہے۔ آئینی طور پر وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنی ہوئی ہیں۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حسینہ واجد کی سیاسی واپسی ہوگی یا عوامی لیگ کا احیاء ہوگا تو انہوں نے زور دے کر کہا کہ عوامی لیگ بنگلہ دیش کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم مرے نہیں، ہم کہیں نہیں جا رہے... عوامی لیگ واپس آ رہی ہے۔"
سجیب واجد نے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی حکومت کا شکریہ ادا کیا اور کہا، "بھارتی حکومت نے اپنے فوری ردعمل سے ان (شیخ حسینہ) کی جان بچائی۔" انہوں نے کہا، "میں ان جتنا بھی شکریہ ادا کروں، کم ہے اور میں ان کے تئیں ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں سیکولر حکومت کے بغیر، بدقسمتی سے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش میں لوگوں کو محفوظ رکھنے، سرحد کو محفوظ بنانے اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ایک پرامن سیکولر حکومت کی ضرورت ہے۔ بنیادی ہدف یہ ہے کہ ہمیں ایسی سرکار چاہیے جو بنیاد پرستی سے لڑنے کے لیے تیار ہو، جس کا مطلب ہے کہ سرکار میں شامل کسی بھی شخص کو بنیاد پرستی کی مذمت کرنی ہوگی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں حالات ابھی بھی قابو میں نہیں ہیں۔ حسینہ کے بیٹے نے کہا، "ڈھاکا شہر کسی حد تک کنٹرول میں ہے، لیکن ڈھاکہ کے باہر امن و امان نہیں ہے، تشدد جاری ہے، افراتفری کا ماحول ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی کے 29 لیڈروں کی لاشیں برآمد
بھارت شیخ حسینہ اور ان کی بہن کو گرفتار کرکے بنگلہ دیش بھیجے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بنگلہ دیش
بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ بڑے پیمانے پر احتجاج اور تشدد پھوٹ پڑا۔ مظاہرین سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کے متنازع نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، جو بعد میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی برطرفی کا مطالبہ کرنے والی مہم میں تبدیل ہو گئی۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے اس سال جنوری میں ہونے والے متنازع انتخابات میں مسلسل چوتھی بار کامیابی حاصل کی تھی جب کہ اپوزیشن نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔