واشنگٹن: صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز کہا کہ وہ ایسے خطرناک ہتھیاروں کی فراہمی نہیں کریں گے جنہیں اسرائیل غزہ کے جنوبی شہر رفح پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جس میں وہاں پناہ لیے ہوئے 10 لاکھ سے زائد شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے تشویش ہے۔
بائیڈن نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب بھی اسرائیل کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور وہ آئرن ڈوم راکٹ انٹرسیپٹرز اور دیگر دفاعی ہتھیار فراہم کرے گا لیکن اگر اسرائیل رفح میں جاتا ہے تو ہم ہتھیاروں اور توپ کے بارودی گولے فراہم نہیں کریں گے۔"
امریکہ نے تاریخی طور پر اسرائیل کو بہت زیادہ فوجی امداد فراہم کی ہے۔ اس میں صرف حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد تیزی آئی ہے۔ بائیڈن کے تبصرے اور گذشتہ ہفتے اسرائیل کو بھاری بموں کی کھیپ کو روکنے کا ان کا فیصلہ ان کی انتظامیہ اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کی حکومت کے درمیان روز بروز بڑھتی ہوئی کشمکش کا سب سے حیران کن مظہر ہے۔ بائیڈن نے بدھ کو کہا کہ رفح کے ارد گرد اسرائیل کی کارروائیاں ابھی تک اس کی سرخ لکیروں کو عبور نہیں کرسکی ہیں، لیکن انہوں نے دہرایا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق، جس نے اس حساس معاملے پر بات کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ، اس کھیپ میں 1,800 تا 2,000 پاؤنڈ (900 کلوگرام) بم اور 1,700 تا 500 پاؤنڈ (225 کلوگرام) کے بم شامل تھے۔ امریکی تشویش کا مرکز بڑا دھماکہ خیز مواد تھا کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ ان بموں کو گھنے شہری علاقے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
بائیڈن نے سی این این کو بتایا کہ "غزہ میں عام شہری ان بموں اور اسرائیلی فوج کے دیگر طریقوں کے نتیجے میں مارے گئے ہیں۔ بائیڈن نے مزید کہا کہ، "میں نے واضح کیا کہ اگر وہ رفح میں جاتے ہیں، تو میں وہ ہتھیار فراہم نہیں کر رہا ہوں جس کا تاریخی طور پر رفح سے نمٹنے کے لیے، شہروں سے نمٹنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔"
بائیڈن نے کہا کہ، "ہم اسرائیل کی سلامتی کے ساتھ ہیں لیکن ہم اسرائیل کی ان علاقوں میں جنگ چھیڑنے کی حمایت نہیں کرتے۔"
بدھ کے اوائل میں وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ہتھیاروں میں تاخیر کی تصدیق کرتے ہوئے سینیٹ کی تخصیصی ذیلی کمیٹی برائے دفاع کو بتایا کہ امریکہ نے اسرائیل کو دی جانے والی ہائی پے لوڈ گولہ بارود کی ایک کھیپ کو روک دیا ہے۔
آسٹن نے کہا، "ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری کام کرتے رہیں گے کہ اسرائیل کے پاس اپنے دفاع کے لیے وسائل موجود ہوں۔" "لیکن انھوں نے کہا کہ، ہم فی الحال رفح میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں کچھ قریب المدت سیکیورٹی امداد کی ترسیل کا جائزہ لے رہے ہیں۔"
بائیڈن انتظامیہ نے اپریل میں فوجی امداد کی مستقبل میں منتقلی کا جائزہ لینا شروع کیا کیونکہ نتن یاہو کی حکومت وائٹ ہاؤس کی کئی مہینوں کی مخالفت کے باوجود رفح پر حملے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اہلکار نے کہا کہ کھیپ کو روکنے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا اور ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ آیا مستقبل میں کھیپ کو آگے بڑھایا جائے یا نہیں۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے اسرائیلی چینل 12 ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کھیپ کو روکنے کا فیصلہ "انتہائی مایوس کن فیصلہ تھا۔ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ، یہ اقدام کانگریس کی جانب سے بائیڈن پر سیاسی دباؤ، یو ایس کیمپس کے احتجاج اور آئندہ انتخابات سے ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: