لندن: برطانوی وزیراعظم رشی سنک نے ملک بھر میں 4 جولائی کو عام انتخابات کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جب کی ان کے پاس انتخابات کرانے کے لیے دسمبر تک کا وقت تھا اور اس میں 28 جنوری 2025 تک توسیع کرنے کی بھی گنجائش تھی۔ لیکن وزیراعظم رشی شنک مے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں حکمران جماعت کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق ملک میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر سکتے ہیں۔
ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم رشی سونک نے کہا کہ کنگ چارلس کو قبل از وقت انتخابات کے فیصلےسے آگاہ کردیا ہے اور انھوں نے پارلیمنٹ تحلیل کرنےکی درخواست بھی منظور کرلی ہے۔ رشی سونک نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ کی معیشت میں بہتری آرہی ہے اور یہ ملک کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے، میں معاشی استحکام بحال کرنے کیلئے حکومت میں آیا تھا اور اس دوران جو کچھ بھی میں نے حاصل کیا اس پر مجھے فخر ہے۔
برطانیہ میں پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات اس بار ملک کے لیے بہت اہم سمجھے جارہے ہیں۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ الیکشن حکمران کنزرویٹیو پارٹی کے لیے وجود کا بھی سوال کھڑا کر سکتا ہے، کیونکہ یہ پارٹی 2010 سے اقتدار میں ہے۔ اس پارٹی نے عالمی مالیاتی بحران کی گہرائی کے دوران اقتدار سنبھالا اور اس کے بعد دو انتخابات بھی جیتے۔ لیکن ان کے 14 سال چیلنجوں اور تنازعات سے بھرے رہے ہیں۔
برطانیہ میں ووٹنگ کیسے کام کرتی ہے؟ برطانیہ بھر کے لوگ ہاؤس آف کامنز کے تمام 650 اراکین کو پانچ سال تک کی مدت کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ جو بھی جماعت ہاؤس آف کامنز میں اکثریت حاصل کرے گی وہ یا تو اکیلے یا اتحاد کی شکل میں اگلی حکومت بنائے گی اور اس پارٹی کا سربراہ ملک کا وزیراعظم ہوگا۔
کنزرویٹیو پارٹی کے سربراہ رشی سنک، جو اکتوبر 2022 سے وزیر اعظم ہیں، الیکشن میں اپنی پارٹی کی قیادت کریں گے۔ ان کے مخالف کیئر اسٹارمر ہوں گے، جو اپریل 2020 سے لیبر پارٹی کے رہنما ہیں۔کسی بھی پارٹی یا اتحاد کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں دوسری پارٹیاں، جن میں سے بعض کو مضبوط علاقائی حمایت حاصل ہے ملک میں مخلوط حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اسکاٹش نیشنل پارٹی، جو اسکاٹش کی آزادی کے لیے مہم چلاتی ہے، لبرل ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی، جو برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان تعلقات برقرار رکھنا چاہتی ہے اس وقت کنزرویٹیو اور لیبر کے بعد پارلیمنٹ میں تین سب سے بڑی جماعتیں ہیں۔