استنبول: ترکی کے وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر عائد تجارتی پابندی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک مستقل جنگ بندی نہیں ہو جاتی اور اسرائیلی حکومت تمام انسانی امداد کو بغیر کسی رکاوٹ کے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔
غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کا سخت ناقد ترکی نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اس نے غزہ میں جاری جارحیت پر اسرائیل سے تمام درآمدات اور برآمدات معطل کر دی ہیں۔ یہ اقدام ملک کی جانب سے ایلومینیم، اسٹیل، تعمیراتی مصنوعات اور کیمیائی کھادوں سمیت متعدد اشیاء پر تجارتی پابندیوں کے اعلان کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔
وزیر تجارت عمر بولات نے جمعہ کو کہا کہ نیا اقدام رفح میں بگڑتے حالات کے جواب میں کیا گیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی حکمران جماعت کو مارچ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بڑا جھٹکا لگا تھا جس کے بعد ایک اسلامی جماعت کی جانب سے ترکی کے صدر پر اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات پر پابندی کا شدید دباؤ تھا۔
- ترک صدر نے اسرائیل پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کی وضاحت کی:
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک نے اسرائیل پر تجارتی پابندیاں اس لیے لگائی ہیں کیونکہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔
اردگان نے استنبول میں جمعہ کی روایتی نماز کے بعد صحافیوں کو بتایا۔"اب تک، اسرائیل 40,000 سے 45,000 فلسطینیوں کو بغیر کسی رحم کے قتل کر چکا ہے۔ بحیثیت مسلمان، ہم کھڑے ہو کر نہیں دیکھ سکتے تھے،"
اردوان نے کہا کہ، "ہمارے درمیان تجارتی حجم 9.5 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن ہم نے (تجارت کا) دروازہ بند کر دیا گویا یہ تجارتی حجم موجود ہی نہیں ہے۔
اردوان نے ایک بار پھر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو اسرائیل اور حماس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورا مغرب اور خاص طور پر امریکہ تمام وسائل بروئے کار لا کر اسرائیل کے لیے کام کر رہا ہے اور بدقسمتی سے فلسطین کے غریب عوام کو اسرائیل بمباری کے ذریعے موت کی سزا دی گئی ہے۔
- اسرائیل کی ترکی کے خلاف جوابی کارروائی:
اسرائیل نے جمعہ کو کہا کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں پر ترکی کی اسرائیل کے ساتھ تجارتی پابندی کے جواب میں مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں ترکی اور فلسطینیوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو کم کرنے کی کوشش کرے گا۔
وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان پابندی لگا کر اسرائیل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن بنیادی طور پر اس فیصلے سے فلسطینی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ ترکی اور فلسطینی اتھارٹی اور غزہ کے درمیان تمام اقتصادی تعلقات کو کم کرنے کے لیے اقدام کرے گی۔
اسرائیل کے بعد، ترکی فلسطینی اتھارٹی کے لیے سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، جو اس کی درآمدات کا تقریباً 18 فیصد ہے۔ وزارت نے کہا کہ وہ تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی اقتصادی فورمز پر ترکی کے خلاف پابندیوں کا بھی مطالبہ کرے گی۔