دبئی، متحدہ عرب امارات: سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے بغیر اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے دو دن بعد، وزارت خارجہ نے بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں اپنی "مضبوط موقف" کا خاکہ پیش کیا۔
بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ سال کا زیادہ تر حصہ تاریخی معاہدہ ابراہیمی کو کامیاب بنانے پر زور دینے میں صرف کیا ہے۔ جس کے تحت سعودی عرب کو امریکی دفاعی ضمانتوں، سویلین نیوکلیئر پروگرام کے قیام میں مدد اور اسرائیل فلسطین تنازع کو حل کرنے کی جانب اہم پیش رفت کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔
سعودی عرب نے اپنے تازہ بیان میں مطالبات کو تیز اور واضح کرنے کا کام کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ، "مملکت سعودی عرب نے امریکی انتظامیہ کو اپنے ٹھوس موقف سے آگاہ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک کوئی سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوں گے جب تک کہ مشرقی یروشلم کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کو اس کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا جاتا، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت ختم ہونی چاہیئے اور تمام اسرائیلی قابض افواج کو غزہ کی پٹی سے انخلاء کرنا ہوگا"
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ وہی علاقے ہیں جو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔
اسرائیل کی مشرقی یروشلم سے متعلق اقدام کو زیادہ تر بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ پورے شہر کو اپنا دارالحکومت سمجھتا ہے۔ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں جو اب 500,000 اسرائیلیوں کی رہائش گاہ ہیں۔ حماس نے دو سال بعد غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ایسے میں اسرائیلی حکومت نے 2005 میں غزہ سے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا لیکن مصر کے ساتھ مل کر اس علاقے کی ناکہ بندی کر دی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو ایک ایسی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں جو فلسطینی ریاست کے سخت مخالف ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف جنگ کے بعد بھی غزہ پر کھلے عام سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: