اسلام آباد: پاکستان کے شہر لاہور میں ہجوم نے ایک خاتون کو عربی خطاطی سے مزین لباس زیب تن کرنے پر توہین مذہب کا الزام عائد کرکے گھیر لیا اور نعرے بازی شروع کردی۔ لیکن اسی دوران ایک خاتون پولیس اہلکار موقع پر پہنچ کر متاثرہ خاتون کو کسی طرح سے بھیڑ سے نکال کر بحفاظت پولیس اسٹیشن لے کر چلی گئی اور وہاں موجود بھیڑ سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ اس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہو رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ کچھ لوگوں کو ان کے مقدمات کی سماعت سے پہلے ہی قتل کیا جاچکا ہے۔
ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ عربی پرنٹ شدہ کپڑے پہنے ایک خاتون ریسٹورنٹ کے باہر منہ ڈھانپے کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس وہاں موجود بھیڑ سے امن برقرار رکھنے کی اپیل بھی کر رہی ہے۔ ایک اور ویڈیو میں خاتون پولیس اہلکار نے بتایا کہ یہ خاتون اپنے شوہر کے ساتھ شاپنگ کے لیے آئی تھی۔ اس خاتون کے لباس کو دیکھ کر وہاں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا۔ کیونکہ اس عورت کے لباس پر عربی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ جس پر لوگ غصے میں آگئے اور اس پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے کپڑے تبدیل کرنے کو کہنے لگے۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایک خاتون پولیس اہلکار موقع پر پہنچی اور کافی مشقت کے بعد اس خاتون کو بحفاظت پولیس اسٹیشن لے گئی۔ جہاں پر متاثرہ نے بتایا کہ اس نے یہ کپڑا اس کے ڈیزائن کو دیکھ کر خریدا تھا۔ اس لباس پر عربی حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ جسے پڑھ کر یہاں کے لوگ غصے میں آگئے اور مجھے گھیر لیا۔ اس پر انہوں نے پاکستانی عوام سے معافی بھی مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا کسی بھی مذہب کی توہن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
خاتون پولیس اہلکار کے لیے میڈل کی سفارش: متاثرہ خاتون کو ہجوم سے بحفاظت نکالنے پر خاتون پولیس اہلکار کی کافی تعریف ہو رہی ہے۔ پنجاب پولیس نے ’قائداعظم‘ پولیس میڈل دینے کی سفارش بھی کی ہے۔ دراصل یہ تمغہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بہادری کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ پنجاب پولیس نے سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ایک قابل تعریف کام ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں متعدد گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ