اسلام آباد: پاکستان میں عام انتخابات کے لیے پولنگ کا وقت ختم ہوگیا ہے اور ووٹوں کی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ ملک میں سکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے فون اور انٹرنیٹ سروسز کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب نگراں حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں موبائل سروسز جزوی طور پر بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ جلد ہی پورے ملک میں موبائل سروسز بحال ہو جائیں گے۔
موبائل سروس کی معطلی پر پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اس کا الیکشن مینجمنٹ سسٹم انٹرنیٹ پر منحصر نہیں ہے، اس وجہ سے ان کا کام متاثر نہیں ہوگا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے پہلے کہا تھا کہ ووٹنگ کے دن انٹرنیٹ خدمات فعال رہیں گی، لیکن ملک میں خراب سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے موبائل سروس کو معطل کردیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سیلولر سروسز کو فوری طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں، ایچ آر سی پی نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پولنگ کے دن بلاتعطل انٹرنیٹ خدمات کو یقینی بنانے کی نگراں حکومت کi ہدایت کے باوجود خدمات میں مسلسل خلل واقع ہوا ہے۔
اس بارے میں شفافیت کا فقدان ہے کہ یہ خلل کہاں، کب اور کب تک جاری رہے گا، اس طرح رائے دہندگان کے معلومات کے حق اور ممکنہ طور پر نتائج کی ترسیل متاثر ہوگی۔ ایچ آر سی پی نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ جن لوگوں نے یہ حکم دیا ان کی شناخت اور ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹ کے مطابق کئی شہروں میں پولنگ بوتھ کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور کئی شہروں میں پولنگ عملہ نہ پہنچنے کی وجہ سے ووٹ کاسٹ کرنے کا عمل تاخیر سے شروع ہوا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں ایک دہشت گردانہ حملے میں الیکشن ڈیوٹی پر مامور چھ پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ملک کے مختلف حصوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹر بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن پولنگ کا عمل جان بوجھ کر سست رکھا گیا ہے جہاں صبح سے سینکڑوں ووٹر موجود ہیں وہاں پولنگ اتنی سست ہے کہ پہلے چار گھنٹے میں سو سے بھی کم ووٹ ڈالے گئے اس سستی کا انٹرنیٹ کی معطلی سے کوئی تعلق نہیں
ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ تمام دن موبائل فون سروسز معطل کر کے الیکشن 2024 کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ پولنگ کو سستی روی کا شکار بنا کر سب سے زیادہ مسائل بلوچستان کے ووٹروں کو درپیش تھے جہاں فاصلے بہت زیادہ ہیں۔
نقدی کی کمی کے شکار ملک پر حکومت کرنے کے لیے نئی حکومت کو عوام آج منتخب کر رہے ہیں۔ قیاس لگایا جا رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔ نواز شریف کی پارٹی کو فوج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گی۔ ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ کل 128,585,760 رجسٹرڈ ووٹرس اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر سکیں۔ ووٹنگ ختم ہونے کے فوراً بعد گنتی شروع ہو جائے گی۔
ملک بھر میں تقریباً 650,000 سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ 12.85 کروڑ سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹر 90,000 پولنگ اسٹیشنوں پر اپنا حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ پاکستان نے عسکریت پسندی کے خطرے کے پیش نظر موبائل سروس کو عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے جیل میں ہونے کے بعد، شریف کی پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) انتخابات میں واحد سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرنے کا اشارہ دے رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اس کے مشہور انتخابی نشان کرکٹ 'بیٹ' سے محروم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے بعد عمران خان کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
پہلے سے ریکارڈ شدہ ایک مختصر پیغام میں، پی ٹی آئی کے جیل میں بند بانی چیئرمین نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ اپنا ووٹ استعمال کریں۔ عمران خان کے ایکس ہینڈل سے ایک ویڈیو پوسٹ میں ووٹروں سے اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ 74 سالہ شریف ریکارڈ چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اس مقابلے میں بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی شامل ہے، جنہیں پارٹی کا وزیر اعظم چہرہ قرار دیا گیا ہے۔ پرتشدد واقعات کے پیش نظر سیکورٹی بڑھانا ناگزیر ہے جب کہ بدھ کے روز شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں انتخابی دفاتر کو نشانہ بنانے والے دو تباہ کن بم دھماکے ہوئے جن میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔
چاروں صوبوں میں کل 132 نشستیں خواتین کے لیے اور 24 اقلیتوں کے لیے مختص ہیں۔ جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں انتخابات میں جیتنے والی جنرل نشستوں کی بنیاد پر الاٹ کی جائیں گی۔ خواتین اور غیر مسلم اقلیتیں دونوں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کے لیے مختص مخصوص نشستوں کے علاوہ تمام جنرل نشستوں پر بھی الیکشن لڑ سکتی ہیں۔
8 فروری کے انتخابات میں جو بھی جیتتا ہے اس کے لیے گرتی ہوئی معیشت اور بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے آگے ایک مشکل کام ہوگا۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ نئی حکومت کو مزید سخت شرائط پر فوری طور پر نئے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: