ETV Bharat / international

ناروے، آئرلینڈ، اسپین کا فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان، اسرائیل کی دھمکی - Recognition of Palestinian State

ناروے، آئرلینڈ اور اسپین کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے ممالک مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر 28 مئی کو باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کریں گے۔ اسرائیل نے ان تینوں ممالک سے اپنے سفیروں کو فوری طور پر واپس بلا لیا ہے۔

Norway, Ireland And Spain to recognise Palestinian state on May 28
اسپین کے شہر بارسلونا میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کے دوران ایک لڑکا فلسطینی پرچم لہرا رہا ہے (اے پی فوٹو)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 22, 2024, 3:44 PM IST

Updated : May 22, 2024, 6:07 PM IST

بارسلونا: اسرائیل کی طرف سے سنگین نتائج سے آگاہ کیے جانے کے باوجود تین یورپی ممالک ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے 28 مئی کو باضابطہ طور پر فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ناروے، آئرلینڈ اور اسپین کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے ممالک مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس اقدام سے یورپی یونین کے دیگر ممالک سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی توقع بڑھ گئی ہے اور اس سے اسرائیل کی تنہائی مزید گہری ہو گی۔

ناروے کے وزیر اعظم نے کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ اگر فلسطین کو تسلیم نہ کیا جائے تو مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بالآخر دو ریاستی حل کے حصول کے لیے عمل کو دوبارہ شروع کرنا اور اسے نئی رفتار فراہم کرنا ممکن بنا سکتا ہے۔

ناروے کے اعلان کے فوراً بعد آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس نے کہا کہ ان کا ملک بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ ہیرس نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ہم میں سے ہر ایک اب اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو بھی قومی اقدامات ضروری ہیں اٹھائے گا۔ آئرش وزیراعظم نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آنے والے ہفتوں میں مزید ممالک اس اہم قدم کو اٹھانے میں ہمارا ساتھ دیں گے۔

ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سنچیز نے کہا کہ ان کا بھی ملک 28 مئی کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ سنچیز نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کی کوششوں کے لیے کئی ماہ یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا دورہ بھی کیا ہے۔

ہسپانوی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ "ہم جانتے ہیں کہ یہ اقدام فلسطین میں ضائع ہونے والی زندگیوں کو واپس نہیں لائے گا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے فلسطینیوں کو دو چیزیں وقار اور امید ملیں گی جو ان کے حال اور مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ تسلیم اسرائیلی عوام کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ امن، انصاف اور اخلاقی استحکام کے حق میں ایک عمل ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس سے تل ابیب کے ساتھ سفارتی کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہے۔

حماس نے فیصلے کا خیرمقدم کیا تو اسرائیل نے اپنے سفیر واپس بلائے:

وہیں دوسری جانب حماس نے تین یورپی ممالک کے فیصلے کو ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے فوری طور پر آئرلینڈ، ناروے اور اسپین سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس سے قبل ایکس پر آئرلینڈ کو ایک ویڈیو پیغام پوسٹ میں کہا تھا کہ "فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے آپ کو ایران اور حماس کے ہاتھوں میں ایک پیادہ بننے کا خطرہ ہے، اس اقدام سے صرف انتہا پسندی اور عدم استحکام کو بڑھاوا ملے گا"۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو تسلیم کرنے کا منصوبہ دہشت گردی کا انعام ہے جس سے غزہ کی جنگ بندی کے لیے مذاکراتی حل کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

اگرچہ درجنوں ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے، لیکن کسی بھی بڑی مغربی طاقت نے ایسا نہیں کیا اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ان تینوں ممالک کے اس اقدام سے کتنا فرق پڑے گا۔ لیکن ان کی شناخت فلسطینیوں کے لیے ایک اہم کامیابی کا نشان ضرور ہوگی، جن کا خیال ہے کہ یہ ان کی جدوجہد کو بین الاقوامی جواز فراہم کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی اور ہم کبھی اوسلو واپس نہیں جائیں گے: اسرائیلی وزیر

اقوام متحدہ کی اسمبلی نے فلسطین کو نئے حقوق دینے کی قرارداد کو منظور کیا

فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی خطے میں استحکام ممکن ہے، سعودی وزیر خارجہ

بارسلونا: اسرائیل کی طرف سے سنگین نتائج سے آگاہ کیے جانے کے باوجود تین یورپی ممالک ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے 28 مئی کو باضابطہ طور پر فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ناروے، آئرلینڈ اور اسپین کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے ممالک مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس اقدام سے یورپی یونین کے دیگر ممالک سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی توقع بڑھ گئی ہے اور اس سے اسرائیل کی تنہائی مزید گہری ہو گی۔

ناروے کے وزیر اعظم نے کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ اگر فلسطین کو تسلیم نہ کیا جائے تو مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بالآخر دو ریاستی حل کے حصول کے لیے عمل کو دوبارہ شروع کرنا اور اسے نئی رفتار فراہم کرنا ممکن بنا سکتا ہے۔

ناروے کے اعلان کے فوراً بعد آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس نے کہا کہ ان کا ملک بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ ہیرس نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ہم میں سے ہر ایک اب اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو بھی قومی اقدامات ضروری ہیں اٹھائے گا۔ آئرش وزیراعظم نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آنے والے ہفتوں میں مزید ممالک اس اہم قدم کو اٹھانے میں ہمارا ساتھ دیں گے۔

ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سنچیز نے کہا کہ ان کا بھی ملک 28 مئی کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ سنچیز نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کی کوششوں کے لیے کئی ماہ یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا دورہ بھی کیا ہے۔

ہسپانوی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ "ہم جانتے ہیں کہ یہ اقدام فلسطین میں ضائع ہونے والی زندگیوں کو واپس نہیں لائے گا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے فلسطینیوں کو دو چیزیں وقار اور امید ملیں گی جو ان کے حال اور مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ تسلیم اسرائیلی عوام کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ امن، انصاف اور اخلاقی استحکام کے حق میں ایک عمل ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس سے تل ابیب کے ساتھ سفارتی کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہے۔

حماس نے فیصلے کا خیرمقدم کیا تو اسرائیل نے اپنے سفیر واپس بلائے:

وہیں دوسری جانب حماس نے تین یورپی ممالک کے فیصلے کو ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے فوری طور پر آئرلینڈ، ناروے اور اسپین سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس سے قبل ایکس پر آئرلینڈ کو ایک ویڈیو پیغام پوسٹ میں کہا تھا کہ "فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے آپ کو ایران اور حماس کے ہاتھوں میں ایک پیادہ بننے کا خطرہ ہے، اس اقدام سے صرف انتہا پسندی اور عدم استحکام کو بڑھاوا ملے گا"۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو تسلیم کرنے کا منصوبہ دہشت گردی کا انعام ہے جس سے غزہ کی جنگ بندی کے لیے مذاکراتی حل کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

اگرچہ درجنوں ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے، لیکن کسی بھی بڑی مغربی طاقت نے ایسا نہیں کیا اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ان تینوں ممالک کے اس اقدام سے کتنا فرق پڑے گا۔ لیکن ان کی شناخت فلسطینیوں کے لیے ایک اہم کامیابی کا نشان ضرور ہوگی، جن کا خیال ہے کہ یہ ان کی جدوجہد کو بین الاقوامی جواز فراہم کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی اور ہم کبھی اوسلو واپس نہیں جائیں گے: اسرائیلی وزیر

اقوام متحدہ کی اسمبلی نے فلسطین کو نئے حقوق دینے کی قرارداد کو منظور کیا

فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی خطے میں استحکام ممکن ہے، سعودی وزیر خارجہ

Last Updated : May 22, 2024, 6:07 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.