اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کے بچوں کے کام کرنے والی ایجنسی (یونیسیف) کا کہنا ہے کہ اسرائیل 7 اکتوبر سے غزہ میں 13,000 سے زیادہ بچوں کو ہلاک کر چکا ہے جب کہ دیگر شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یونیسیف کے مطابق زندہ بچ جانے والے بچے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ ان میں رونے کی توانائی بھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے اتوار کو سی بی ایس نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ، "ہزاروں بچے یا تو زخمی ہوئے ہیں یا وہ کہاں ہیں کہا نہیں جا سکتا۔ وہ ملبے کے نیچے بھی دبے ہو سکتے ہیں۔۔ انھوں نے مزید کہا کہ، ہم نے دنیا میں کسی تنازعہ بچوں کے ہلاکتوں کی اتنی شرح نہیں دیکھی ہے،" ۔
کیتھرین رسل نے کہا کہ، "میں ان بچوں کے وارڈوں میں گیا ہوں جو شدید خون کی کمی کا شکار ہیں، پورا وارڈ بالکل خاموش ہے۔ کیونکہ بچے، رونے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔‘‘
رسل نے کہا کہ امداد اور امداد کے لیے ٹرکوں کو غزہ میں منتقل کرنے کے لیے "بہت بڑے بیوروکریٹک چیلنجز" تھے کیونکہ اسرائیل کی نسل کشی جنگ شروع ہونے کے بعد سے کم از کم بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب، اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (انروا) کے مطابق، شمالی غزہ میں دو سال سے کم عمر کے تین میں سے ایک بچہ اس وقت شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ انروا نے خبردار کیا کہ پانچ مہیوں سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہا محصور علاقہ قحط کا سامنا کر رہا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں کم از کم 31,645 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، اور 70 ہزار سے زائد زخمی ہیں جبکہ جنگ کی وجہ سے تقریباً 20 لاکھ فلسطینی باشندے بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: