واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کے روز اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے نیا منصوبہ تجویز کیا ہے۔ یہ نیا منصوبہ حماس کے سابقہ منصوبوں سے الگ نہیں ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو پھر یہ ایک ایسے تنازعے میں جنگ بندی کا آغاز کرے گا جس میں 36,000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
غزہ امن منصوبہ میں کون سی تجاویز پیش کی گئی ہے۔
یہ منصوبہ تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی کی تجویز ہے، جس دوران اسرائیلی فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں سے انخلاء کرے گی اور اسرائیلی یرغمالیوں کا سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کیا جائے گا اور انسانی امداد لے جانے والے 600 ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوں گے۔
دوسرے مرحلے میں حماس اور اسرائیل جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے شرائط پر بات چیت کریں گے اور جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک مذاکرات جاری رہیں گے۔
تیسرے مرحلے میں ایک مستقل جنگ بندی کی پیروی کی جائے گی، جس میں 60 فیصد کلینک، اسکول، یونیورسٹیاں اور مذہبی عمارتیں جو اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں تباہ ہو چکی ہیں، کی تعمیر نو کی جائے گی۔
یہ منصوبہ کس کس نے پسند کیا؟
حماس نے جمعے کے روز کہا کہ اس نے مزید تفصیلات جانے بغیر ہی تجاویز کو مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے۔ دوسری جانب کچھ اسرائیلی سیاست دانوں اور یرغمالیوں کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی اس منصوبے کی حمایت کی گئی ہے۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے اصل حریف، بینی گانٹز نے اس تجویز کے بارے میں مثبت بات کی۔
اسرائیل حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپڈ نے بھی اس منصوبے کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی اس منصوبے کی توثیق کی۔ برطانیہ اور جرمنی سمیت اسرائیل کے بہت سے اتحادی نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔
کس کس نے اس منصوبے کو ناپسند کیا؟
غزہ امن منصوبے کی زیادہ تر مخالفت اسرائیلی کابینہ کے اندر سے ہوئی ہے۔ ہفتے کے روز نیتن یاہو نے کہا کہ کوئی بھی اقدام جس میں حماس کی حکومت کرنے اور جنگ کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ شامل نہ ہو تب تک وہ رکنے والے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ کی صورتحال کے بارے میں نیتن یاہو کی تشریح بائیڈن انتظامیہ سے متصادم ہے۔
جمعہ کے روز اپنے اعلان میں بائیڈن نے اشارہ کیا کہ وہ حماس کی غزہ میں موجودگی کو اس قدر کم کر دیا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملے کا اعادہ ناممکن ہے۔
نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحادی اور انتہائی قوم پرست ایتمار بن گیویئر اور بیزالال سمورٹریچ نے دھمکی دی تھی کہ اگر تجاویز کو قبول کر لیا گیا تو وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ جس سے نیتن یاہو کی سرکار بھی گر سکتی ہے۔
تو کیا پھر غزہ امن منصوبہ کامیاب ہوگا یا نہیں؟
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ حکومت پر اس معاہدے کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ تاہم، معاہدے کو مسترد کرنے کا دباؤ بھی اتنا ہی مضبوط ہے، اس وجہ سے یہ دیکھنا باقی رہے گا کہ نیتن یاہو اپنی حکومتی بقا کا انتخاب کرتے ہیں یا اسیروں کی واپسی کا۔
حماس کی طرف سے بھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس کی مثبت سوچ اس تجویز کو قبول کرنے کا باعث بنے گی یا نہیں۔ لبنان میں گروپ کے ترجمان اسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ حماس کو ابھی تک امریکہ کی طرف سے تحریری تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔
اگر منصوبہ کامیاب نہیں ہوتا تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟
غزہ میں انسانی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ رفح شہر سے دس لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں کیونکہ اسرائیل نے وہاں پر بھی اپنا مہلک حملہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سب سے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے رفح میں گزشتہ ہفتے دو الگ الگ واقعات میں 66 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ اگر جنگ جاری رہی تو صحت کی دیکھ بھال کرنے والے مراکز ٹھپ ہوجائیں گے اور حالات مزید ابتر ہوجائیں گے۔