یروشلم: اسرائیل کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کو بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق کنیسٹ (اسرائیل کی پارلیمنٹ) میں قرارداد کے حق میں 68 اور مخالفت میں صرف نو ووٹ پڑے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے اسرائیل کی ریاست اور اس کے شہریوں کے وجود کے لیے خطرہ ہوگا، اور یہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کو دوام بخشے گا اور خطے کو غیر مستحکم بھی کرے گا۔
وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ جبکہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ کی سینٹرل لیفٹ پارٹی قرار داد کی حمایت سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ سے واک آوٹ کردیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایسی قرارداد منظور کی ہے۔ ایسی قرارداد سے اسرائیلی اور عرب ممالک میں امن کیلئے سفارتی کوششوں کا بھی دھچکا لگا ہے۔
The Israeli kneset voted with absolute majority against the establishment of a Palestinian State . No zionist party from both the government and the opposition voted against the resolution.
— Mustafa Barghouti @Mustafa_Barghouti (@MustafaBarghou1) July 18, 2024
This resolution represents a rejection of peace with Palestinians and an official…
فلسطین نیشنل انیشیٹو کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ برغوتی نے قرارداد کی منظوری پر تنقید کی۔انہوں نے ایکس پر لکھا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے کسی بھی صہیونی پارٹی نے قرارداد کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ یہ قرارداد فلسطینیوں کے ساتھ امن کو مسترد کرنے اور اوسلو معاہدے کے موت کا اعلان کرتی ہے۔
دراصل اوسلو معاہدے میں خودمختار فلسطینی ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا جو اسرائیلی ریاست کے شانہ بشانہ رہے گا، جس پر پہلی بار 1993 میں فلسطینی اور اسرائیلی رہنماؤں کے درمیان دستخط بھی کیے گئے تھے۔
فلسطینی اتھارٹی کے اہلکار حسین الشیخ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے ایک آزاد فلسطین کو مسترد کرنا قابض ریاست کی نسل پرستی اور اس کی بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرنے کی تصدیق کرتا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ دنیا کے وہ ممالک جو فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں انہیں دو ریاستی حل کے تحفظ کے لیے اسے فوری طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔