ایتھنز: مغربی تہذیب کا گرو مانا جانے والا یونان روایتی اصولوں کو توڑتے ہوئے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دے کر قدامت پسند ممالک میں سرفہرست بن گیا ہے۔ کل پارلیمنٹ کے سامنے قوس قزح کے جھنڈے لہرائے گئے اور ایل جی بی ٹی کیو خاندانوں نے تاریخی لمحہ کا جشن منایا۔
با اثر آرتھوڈوکس چرچ کی شدید مخالفت کے باوجود، ملک نے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے اس تاریخی تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔ چرچ کے حامیوں اور قدامت پسند تنظیموں نے اس مجوزہ قانون کے خلاف چھوٹے چھوٹے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے قانون ساز واسلیس سٹیگاس، چھوٹی سپارٹنز پارٹی کے سربراہ، نے جمعرات کو ہونے والی اس قانون سازی کو "بیماری" قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس کو اپنانے سے "جہنم اور بگاڑ کے دروازے کھل جائیں گے۔"
وزیر اعظم کیاری کوس میتسوٹاکس اور نیو ڈیموکریسی پارٹی کی حمایت یافتہ حکومت کا یہ تاریخی فیصلہ، بااثر آرتھوڈوکس چرچ کی شدید مخالفت کے باوجود سامنے آیا ہے۔ پارلیمنٹ نے بدھ کے روز ایک بل کو منظوری دی ہے جو نہ صرف ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دیتا ہے بلکہ ہم جنس پرست خاندانوں کی طرف سے بچوں کو گود لینے کو بھی قانونی حیثیت دیتا ہے۔
دو دن کی بحث کے بعد بل کو زبردست حمایت حاصل ہوئی اور پارلیمنٹ میں موجود 245 میں سے 176 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ وزیر اعظم نے اس فیصلے کو ’’انسانی حقوق کے لیے سنگ میل‘‘ اور یونان کو ایک ’’ترقی پسند اور جمہوری ملک، جو یورپی اقدار کے لیے پوری طرح پرعزم ہے ‘‘ کے طور پر واضح کیا۔
خود کو ہم جنس پرست اعلان کرنے والے اسٹیفانوس کاسیلاکس کی قیادت والی بائیں بازو کی سریزا پارٹی کا بھی اس تبدیلی کے حق میں ووٹ دینے میں کلیدی کردار رہا۔
روایت اور ترقی پسند نظریات کے درمیان ٹکراؤ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے حقوق کو قبول کرنے اور ان کے تحفظ کی طرف ایک اہم سماجی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ کاسیلاکس کے ذاتی تجربات نے بحث میں ایک انسانی جہت کا اضافہ کیا، جس میں ہم جنس جوڑوں اور ان کے خاندانوں پر قانونی عدم مساوات کا حقیقی دنیا کا اثر پر زور دی گیا۔ بل کی زبردست منظوری آرتھوڈوکس کمیونٹی کے اندر روایتی اصولوں سے علیحدگی کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: