یروشلم: اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ، انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ گنجان آباد جنوبی غزہ کے شہر رفح پر متوقع اسرائیلی حملے سے قبل وہاں سے شہریوں کو نکالنے کا منصوبہ تیار کرے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مصر اور امریکہ رفح میں زمینی افواج کو منتقل کرنے کے اسرائیلی ارادوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ رفح کی قبل از جنگ کی آبادی تقریباً 280,000 تھی، اور اقوام متحدہ کے مطابق اب غزہ میں کہیں اور لڑائی سے فرار ہونے کے بعد 1.4 ملین اضافی لوگ رشتہ داروں کے ساتھ، پناہ گاہوں میں یا وسیع خیمہ کیمپوں میں مقیم ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ رفح چار ماہ سے زیادہ کی جنگ کے بعد غزہ میں حماس کا آخری گڑھ ہے۔
نتن یاہو کے دفتر کے مطابق رفح میں حماس کی چار بٹالین چھوڑ کر حماس کو ختم کرنے کی جنگ کا مقصد حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ، رفح میں شدید سرگرمی کا تقاضا ہے کہ شہری جنگی علاقوں سے نکل جائیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے فوجی اور سکیورٹی حکام کو ایک "مشترکہ منصوبہ" بنانے کا حکم دیا ہے جس میں عام شہریوں کا بڑے پیمانے پر انخلاء اور قصبے میں حماس کی افواج کی تباہی دونوں شامل ہیں۔
غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق، اسرائیلی فضائی اور زمینی حملے میں تقریباً 28,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ غزہ کے 2.3 ملین افراد میں سے تقریباً 80 فیصد بے گھر ہو چکے ہیں، اور یہ علاقہ خوراک اور طبی خدمات کی قلت کے ساتھ انسانی بحران میں ڈوب گیا ہے۔
نیتن یاہو نے بڑی حد تک شہریوں کی ہلاکتوں پر بین الاقوامی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس رہائشی علاقوں میں آپریشن چلانے کے لیے شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ لیکن اس تنقید میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ نتن یاہو اور دیگر رہنماؤں نے رفح میں منتقل ہونے کے عزم کا اظہار کر دیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا کہ جنگ میں اسرائیل کا طرز عمل تباہ کن ہے۔ امریکہ کا یہ بیان اپنے قریبی اتحادی کے بارے میں اب تک کی سب سے سخت تنقید ہے۔ محکمہ خارجہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں رفح پر حملہ "ایک تباہی ہو گا۔" آپریشن کئی سطحوں پر ایک چیلنج ہوگا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ شہری کہاں جا سکتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت نے خاص طور پر شمالی غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور لاکھوں لوگوں کے پاس واپس جانے کے لیے گھر نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: