دوحہ: قطری وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ، "غزہ کے حوالے سے مذاکرات کچھ رکاوٹوں کا شکار ہیں، اور ہم مصائب کے خاتمے کے لیے اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
چھ ماہ سے جاری جنگ کے بعد بھی غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے قطر اور مصر کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات میں ابھی تک کسی پیش رفت کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اس کی اہم وجہ اسرائیل اور حماس کی اپنی باہمی ناقابل مصالحت شرائط پر قائم رہنا ہے۔
آج یوم فلسطینی اسیران ہے، فلسطین میں اس دن کو قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جو فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ان کے حقوق کی حمایت کے لیے وقف ہے۔ اس موقع پر ایک بیان میں حماس نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی جیلوں سے اپنے قیدیوں کی رہائی ان کے لیے اولین ترجیح ہے۔
حماس نے کہا کہ " اسرائیلی جیلوں اور حراستی مراکز کے اندر قیدیوں کے خلاف انتہائی گھناؤنے جرائم انجام دیے جاتے ہیں، جس میں طبی غفلت، تشدد اور براہ راست قتل شامل ہیں"۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو 7 اکتوبر سے مغربی کنارے میں حراست میں لیے گئے ہزاروں اغوا کاروں کی زندگیوں اور حفاظت کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
امریکہ، قطر اور مصر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت کرنے کی کوشش میں کئی ہفتوں سے کام کررہے ہیں لیکن یہ کوشش ابھی تک کامیاب ہوتی نہیں دکھائی دیتی۔ حماس جنگ بندی کے لیے اپنی پوزیشن پر قائم ہے۔
حماس نے ایک مرحلہ وار عمل کی تجویز پیش کی ہے جس میں وہ غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلاء، امداد اور تعمیر نو کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے اور سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے باقی تمام مغویوں کو رہا کرے گی، جن میں اعلیٰ عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ حماس کی ان شرائط کو اسرائیل نے مسترد کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: