ETV Bharat / international

بنگلہ دیش: سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے خلاف پر تشدد مظاہروں میں اضافے کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ - Curfew in Bangladesh

author img

By AP (Associated Press)

Published : Jul 20, 2024, 10:04 AM IST

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے خلاف جاری احتجاج میں شدت کے بعد پورے ملک میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ اب تک پر تشدد احتجاج میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ملک گیر کرفیو کا اعلان
بنگلہ دیش میں ملک گیر کرفیو کا اعلان (Photo: AP)

ڈھاکہ، بنگلہ دیش: شیخ حسینہ حکومت نے جمعہ کو دیر گئے بنگلہ دیش میں ملک گیر کرفیو کا اعلان کیا اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے خلاف جاری پر تشدد جھڑپوں کے بعد امن برقرار رکھنے کے لیے فوجی دستوں کی تعیناتی کا حکم دیا ہے۔

یہ اعلان حکمراں عوامی لیگ پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبیدالقادر نے کیا۔ یہ اعلان پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے جمعے کے اوائل میں مظاہرین پر فائرنگ اور دارالحکومت میں تمام اجتماعات پر پابندی کے بعد سامنے آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فائرنگ میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔ عبیدالقادر نے کہا کہ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے سے جاری یہ احتجاج اس ہفتے تیزی سے پورے ملک میں پھیل گیا۔ یہ تشدد وزیر اعظم شیخ حسینہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ جنوری میں انتخابات کے بعد مسلسل چوتھی بار عہدہ سنبھالنے میں شیخ حسینہ کامیاب ہوئیں تھیں۔ اہم اپوزیشن گروپوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

جمعہ کو ہلاک ہونے والے افراد کے اعداد وشمار مختلف ہیں۔ انڈیپنڈنٹ ٹیلی ویژن نے 17 اور سوموئے ٹی وی نے 30 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر نے ڈھاکہ میڈیکل کالج اور اسپتال میں 23 لاشیں دیکھنے کا دعویٰ کیا، لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا وہ سب کی موت گزشتہ روز جمعہ کو ہوئی تھی۔

ملک بھر میں جاری پر تشدد جھڑپیں، بنگلہ دیش کی حکمرانی اور معیشت میں دراڑیں اور اچھی ملازمتوں کی کمی سے جوجھ رہے نوجوان گریجویٹس کی مایوسی کو اجاگر کیا ہے۔

حکومت نے کیمپس کو بند کرنے اور احتجاج کو ختم کرنے کے لیے پورے دارالحکومت میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر نے سرحدی محافظوں کے اہلکاروں کو 1,000 سے زائد مظاہرین کے ایک ہجوم پر گولی چلاتے ہوئے دیکھا جو سرکاری طور پر چلنے والے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کے ہیڈ آفس کے باہر جمع ہوئے تھے اور گزشتہ روز مظاہرین نے حملہ کر کے اسے آگ لگا دی تھی۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں جمعرات کی رات انٹرنیٹ خدمات اور موبائل ڈیٹا بڑے پیمانے پر متاثر ہوا اور جمعہ کو بھی بند رہا۔ فیس بک اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی لوڈ نہیں ہو رہے تھے۔

شیخ حسینہ حکومت نے 1971 میں پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں لڑنے والے سابق فوجیوں کے رشتہ داروں کے لیے سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد تک سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا ہے، جس کے خلاف بنگلہ دیش کے نوجوان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام امتیازی ہے اور اس کا مقصد وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حامیوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ واضح رہے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی نے تحریک آزادی کی قیادت کی تھی۔

لیکن حسینہ نے کوٹہ سسٹم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق فوجی اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر جنگ میں اپنی شراکت کے لیے سب سے زیادہ احترام کے مستحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ڈھاکہ، بنگلہ دیش: شیخ حسینہ حکومت نے جمعہ کو دیر گئے بنگلہ دیش میں ملک گیر کرفیو کا اعلان کیا اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے خلاف جاری پر تشدد جھڑپوں کے بعد امن برقرار رکھنے کے لیے فوجی دستوں کی تعیناتی کا حکم دیا ہے۔

یہ اعلان حکمراں عوامی لیگ پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبیدالقادر نے کیا۔ یہ اعلان پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے جمعے کے اوائل میں مظاہرین پر فائرنگ اور دارالحکومت میں تمام اجتماعات پر پابندی کے بعد سامنے آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فائرنگ میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔ عبیدالقادر نے کہا کہ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے سے جاری یہ احتجاج اس ہفتے تیزی سے پورے ملک میں پھیل گیا۔ یہ تشدد وزیر اعظم شیخ حسینہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ جنوری میں انتخابات کے بعد مسلسل چوتھی بار عہدہ سنبھالنے میں شیخ حسینہ کامیاب ہوئیں تھیں۔ اہم اپوزیشن گروپوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

جمعہ کو ہلاک ہونے والے افراد کے اعداد وشمار مختلف ہیں۔ انڈیپنڈنٹ ٹیلی ویژن نے 17 اور سوموئے ٹی وی نے 30 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر نے ڈھاکہ میڈیکل کالج اور اسپتال میں 23 لاشیں دیکھنے کا دعویٰ کیا، لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا وہ سب کی موت گزشتہ روز جمعہ کو ہوئی تھی۔

ملک بھر میں جاری پر تشدد جھڑپیں، بنگلہ دیش کی حکمرانی اور معیشت میں دراڑیں اور اچھی ملازمتوں کی کمی سے جوجھ رہے نوجوان گریجویٹس کی مایوسی کو اجاگر کیا ہے۔

حکومت نے کیمپس کو بند کرنے اور احتجاج کو ختم کرنے کے لیے پورے دارالحکومت میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر نے سرحدی محافظوں کے اہلکاروں کو 1,000 سے زائد مظاہرین کے ایک ہجوم پر گولی چلاتے ہوئے دیکھا جو سرکاری طور پر چلنے والے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کے ہیڈ آفس کے باہر جمع ہوئے تھے اور گزشتہ روز مظاہرین نے حملہ کر کے اسے آگ لگا دی تھی۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں جمعرات کی رات انٹرنیٹ خدمات اور موبائل ڈیٹا بڑے پیمانے پر متاثر ہوا اور جمعہ کو بھی بند رہا۔ فیس بک اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی لوڈ نہیں ہو رہے تھے۔

شیخ حسینہ حکومت نے 1971 میں پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں لڑنے والے سابق فوجیوں کے رشتہ داروں کے لیے سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد تک سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا ہے، جس کے خلاف بنگلہ دیش کے نوجوان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام امتیازی ہے اور اس کا مقصد وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حامیوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ واضح رہے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی نے تحریک آزادی کی قیادت کی تھی۔

لیکن حسینہ نے کوٹہ سسٹم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق فوجی اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر جنگ میں اپنی شراکت کے لیے سب سے زیادہ احترام کے مستحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.