ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کی مخالفت کو لیکر تشدد جاری ہے۔ جمعرات کو اس میں مزید اضافہ ہوگیا۔ طلباء نے کئی جگہ توڑ پھوڑ کی اور ملک کے سرکاری نشریاتی ادارے کی عمارت کو آگ لگا دی۔ اس کے علاوہ بھی کئی مقامات پر آگ زنی کی گئی۔ حالانکہ ایک دن پہلے ہی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ٹی وی کے ذریعہ عوام سے ملک میں امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی تھی مگر اس کا اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس تشدد میں ابھی تک مرنے والوں کی تعداد 32 ہو گئی ہے۔
ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن نے اپنے شہریوں کو سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس سے قبل منگل کو ہی یہاں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ جس میں طلباء اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکمران جماعت عوامی لیگ کے طلباء ونگ کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تشدد میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب تک 32 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس میں ایک 17 سالہ نوجوان اور ایک صحافی بھی شامل ہے۔
اس تشدد میں بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ وزیر اعظم حسینہ کے چوتھی مدت کے لیے پھر سے منتخب ہونے کے بعد سے یہ ملک بھر میں سب سے بڑا احتجاج ہے۔
اس تشدد کی اہم وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً سترہ کروڑ ہے اور اس آبادی کا پانچواں حصہ یا تو بے روزگار ہے یا بھر تعلیم سے محروم ہے۔
اس تشدد کے بارے میں سب کچھ 10 پوائنٹس میں پڑھیں:
- بنگلہ دیش کے نوجوان سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم میں سدھار کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بھیڑ کی شکل میں جمع ہوئے سینکڑوں مظاہرین نے ہنگامہ آرائی کی اور پولیس کا گھیراؤ کیا۔ اس بھیڑ نے بی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر پہنچ کر چینل کی عمارت اور کئی کھڑی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ کئی لوگ دفتر کے اندر پھنسے ہوئے تھے تاہم انہیں بحفاظت نکال لیا گیا۔
- میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو ہونے والی جھڑپوں میں مزید 25 افراد ہلاک ہوئے۔ ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں یونیورسٹی کے طلباء ایک ہفتے سے زائد عرصے سے سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کے نظام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جس میں 1971 میں پاکستان سے ملک کی آزادی کے لیے لڑنے والے جنگی ہیروز کے رشتہ داروں کے لیے ریزرویشن بھی شامل ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ریزرویشن کا نظام درست کیا جانا چاہئے۔
- پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیوں، آنسو گیس اور شور کے دستی بموں کا استعمال کر رہی ہے لیکن فی الحال اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس تشدد میں مذید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
- تشدد کے باعث دارالحکومت میں میٹرو اسٹیشن بند کر دیے گئے۔ حکومت نے انٹرنیٹ بھی بند کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ افواہوں پر بھی لگام لگائی جا سکے۔ فی الحال پورے ملک میں انٹرنیٹ کی خدمات بند' کر دی گئیں ہیں۔
- حکومت نے ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے بارڈر گارڈ بنگلہ دیش کے دستوں کو دارالحکومت سمیت ملک بھر میں تعینات کر دیا ہے۔
- شیخ حسینہ کی حکومت نے اسکول اور یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ بدھ کے روز، وزیر اعظم شیخ حسینہ نے نیشنل ٹی وی پر آکر اپیل کی کہ اس طرح کے مظاہروں کو فوراً روکا جائے اور ان تشدد میں شامل مظاہرین کو بخشا نہیں جائے گا اس کے لئے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔ مگر اگلے دن تشدد میں مزید اضافہ ہوگیا۔
- طلباء کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کے تحت نصف سے زیادہ سرکاری ملازمتیں مخصوص گروہوں کے لیے مخصوص ہیں، جن میں پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ آزادی کے سابق فوجیوں کے بچے بھی شامل ہیں۔
- میڈیا رپورٹس کے مطابق شیخ حسینہ واجد کی حمایت کرنے والے حکومت کے حامی گروپوں کے بچے بھی اس اسکیم سے مستفید ہوتے ہیں۔ دریں اثنا انسانی حقوق کے گروپوں نے حسینہ واجد کی حکومت پر اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ بنگلہ دیش کے جونیئر وزیر جنید احمد پلک نے انٹرنیٹ پر پابندی کا یہ کہہ کر جواز پیش کیا کہ سوشل میڈیا کو 'افواہیں، جھوٹ اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے'۔
- وزیر قانون انیس الحق نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت نے احتجاج کرنے والے طلباء سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔
- وزیر اعظم شیخ حسینہ نے انہیں اور وزیر تعلیم محب الحسن چودھری کو بات چیت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ مظاہرین کے ترجمان نے بعد میں کہا کہ وہ حکومت اور نجم الحسن کے ساتھ مزید مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔ اس کے بجائے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کو منسوخ کرنے کے لیے فوری طور پر گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: