ETV Bharat / health

اس بری عادت کا شکارہونے سے پہلے ہوشیار رہیں، ورنہ آپ کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا - Habit Procrastination - HABIT PROCRASTINATION

کیا آپ کو بھی ہر کام کل کے لیے ٹال مٹول کرنے کی عادت ہے؟ اگر ہاں، تو کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ عادت نہ صرف آپ کی صلاحیت پر بلکہ آپ کی ذہنی اورجسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

اس بری عادت کا شکارہونے سے پہلے ہوشیاررہیں ورنہ آپ کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا
اس بری عادت کا شکارہونے سے پہلے ہوشیاررہیں ورنہ آپ کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا (etv bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 6, 2024, 12:04 PM IST

Updated : Jun 6, 2024, 12:19 PM IST

حیدرآباد: ہر کام کو کل کے لیے ٹالنے کی عادت یا جسے ٹال مٹول بھی کہتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ اگر تاخیر ایک عادت میں تبدیل ہو جائے تو یہ نہ صرف انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ اس کے کام کرنے کی صلاحیت، اس کی پیداواری صلاحیت اور اس کی سماجی اور خاندانی زندگی کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اگر آپ کو بھی ہر کام کل کے لیے ملتوی کرنے کی عادت ہے تو مکمل خبر پڑھیں.

  • تاخیر کیوں ہوتی ہے

دہلی کی ماہر نفسیات ڈاکٹر رینا دتہ (پی ایچ ڈی) کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں میں تاخیر یا ہر کام کو کل کے لیے ملتوی کرنے کی عادت نظر آتی ہے۔ بعض لوگ بعض اوقات سستی یا کسی اور وجہ سے آج کے کام کو کل کے لیے ملتوی کر دیتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں میں یہ عادت بننا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں لوگ ہمیشہ ہر کام کو کل یا بعد کے لیے ملتوی کرتے رہتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ کام ملتوی کرنے کی عادت کو سستی کہتے ہیں۔ لیکن سستی تاخیر کی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن یہ سستی کا مترادف نہیں ہے۔ کیونکہ اس رجحان میں لوگ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن سستی، کام نہ کرنے کی خواہش، کسی قسم کے خوف یا دیگر وجوہات کی وجہ سے اسے ملتوی کرتے رہتے ہیں۔

  • تاخیر کی وجوہات

وہ کہتی ہیں کہ تاخیر کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کاہلی کے علاوہ، ان میں کام یا ناکامی کا خوف، مشکوک اور کام کی پیچیدگی، کام کا بورنگ ہونا غیر دلچسپی یا کام نہ کرنے کی خواہش وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام عوامل کے علاوہ، شخص کے طرز عمل کے مسائل جیسے کہ ضبط نفس کی کمی اور وقت کے انتظام کی مہارت کی کمی بھی تاخیر کے لیے ذمہ دار ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ آج کل لوگوں میں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا یا ریلز وغیرہ دیکھنے میں بہت زیادہ وقت ضائع کرنے کی وجہ سے تاخیر کا مسئلہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنا بعض اوقات انسان کو عادی بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوگ جان کر اور بجھانے کے باوجود ان سے دور نہیں رہ پاتے اور ان کی وجہ سے وہ اپنے اہم کاموں میں بھی تاخیر کرنے لگتے ہیں۔

  • زندگی پر تاخیر کے اثرات

وہ کہتی ہیں کہ تاخیر عام طور پر لوگوں میں تناؤ اور اضطراب کا سبب بن سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق بہت سے دوسرے، رویے، سماجی، خاندانی اور مالی مسائل بھی ہیں۔ اس کا اثر ان کی شخصیت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا اور پہچاننا بہت ضروری ہے کہ یہ رویہ ایک عادت بن چکا ہے اور اس سے بروقت نمٹنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

تاخیر سے انسان کی صحت اور زندگی پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

ہر کام کو ملتوی کرنے کی عادت انسان کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نہ صرف انسان کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتا ہے بلکہ اس کے کام کے معیار کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس شخص کی ساکھ اور امیج بھی خراب ہو سکتی ہے۔

اگر کوئی شخص اپنے اہم کاموں کو ملتوی کرتا رہے تو ایسا نہیں ہے کہ وہ کام اس کے دماغ سے نکل جائیں۔ بلکہ ان کی سوچ اور سوچ کہ کام تو کرنا ہے اور اس کی ڈیڈ لائن ہمیشہ ان کے ذہن میں گھومتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان پر ذہنی دباؤ رہتا ہے۔ جس سے وہ ذہنی طور پر بھی تھک جاتا ہے۔ ایسے میں وقت پر کام نہ کرنے سے بے چینی، گھبراہٹ، تناؤ اور بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ لمبے عرصے تک تاخیر ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ماؤتھ واش استعمال کرتے ہیں تو جائیں الرٹ، ایک سے زیادہ بیماریوں کا ہو سکتا ہے خطرہ

اگر کام وقت پر مکمل نہ ہو تو کام میں پریشانیاں، خود پرستی اور لوگوں کے غصے والے رویے سے انسان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے اور اس کی خود اعتمادی بھی کم ہو جاتی ہے۔ جو بعض اوقات ان میں جرم، شک اور مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔

تاخیر ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات کو بھی متاثر کرتی ہے۔وقت پر کام مکمل نہ کرنے سے ساتھیوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ اور تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔

لوگ ہر کام کو ملتوی کرنے کی عادت کی وجہ سے بہت سے مواقع کھو دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ وقت پر کام نہیں کرتے ہیں تو انہیں نئے پراجیکٹس، ترقیوں اور دیگر اہم مواقع سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے کیریئر اور ذاتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔

تاخیر کی وجہ سے انسان میں تناؤ اور اضطراب بڑھ جاتا ہے اور یہ ان کی نیند کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی حالت میں جسمانی سستی بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں انسان میں ہائی بلڈ پریشر اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

  • تاخیر سے کیسے بچیں

ڈاکٹر رینا دتہ بتاتی ہیں کہ وقت کے نظم و ضبط، خود نظم و ضبط اور درست ترجیحات طے کر کے تاخیر کے رجحان سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ باتوں کو ذہن میں رکھنا اور چھوٹی چھوٹی عادات کو اپنانا بھی تاخیر اور اس کے اثرات سے بچنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

  • کاموں کے حوالے سے ترجیح کا فیصلہ کریں، جیسے کہ کون سا کام زیادہ اہم ہے اور کون سا کم، اور اس کے مطابق کام کرنے کی حکمت عملی بنائیں۔
  • بڑے کاموں کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے مکمل کریں۔ ایسی صورت میں انہیں مکمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
  • ہر کام کے لیے ایک مقررہ وقت مقرر کریں۔
  • ایسے خیالات، فتنوں اور خلفشار سے بچنے کی کوشش کریں جو آپ کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
  • اپنے آپ کو متحرک کرنے کے لیے چھوٹے مقاصد حاصل کریں۔
  • کام کرتے وقت فون سے فاصلہ رکھیں بالخصوص سوشل میڈیا۔

حیدرآباد: ہر کام کو کل کے لیے ٹالنے کی عادت یا جسے ٹال مٹول بھی کہتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ اگر تاخیر ایک عادت میں تبدیل ہو جائے تو یہ نہ صرف انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ اس کے کام کرنے کی صلاحیت، اس کی پیداواری صلاحیت اور اس کی سماجی اور خاندانی زندگی کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اگر آپ کو بھی ہر کام کل کے لیے ملتوی کرنے کی عادت ہے تو مکمل خبر پڑھیں.

  • تاخیر کیوں ہوتی ہے

دہلی کی ماہر نفسیات ڈاکٹر رینا دتہ (پی ایچ ڈی) کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں میں تاخیر یا ہر کام کو کل کے لیے ملتوی کرنے کی عادت نظر آتی ہے۔ بعض لوگ بعض اوقات سستی یا کسی اور وجہ سے آج کے کام کو کل کے لیے ملتوی کر دیتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں میں یہ عادت بننا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں لوگ ہمیشہ ہر کام کو کل یا بعد کے لیے ملتوی کرتے رہتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ کام ملتوی کرنے کی عادت کو سستی کہتے ہیں۔ لیکن سستی تاخیر کی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن یہ سستی کا مترادف نہیں ہے۔ کیونکہ اس رجحان میں لوگ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن سستی، کام نہ کرنے کی خواہش، کسی قسم کے خوف یا دیگر وجوہات کی وجہ سے اسے ملتوی کرتے رہتے ہیں۔

  • تاخیر کی وجوہات

وہ کہتی ہیں کہ تاخیر کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کاہلی کے علاوہ، ان میں کام یا ناکامی کا خوف، مشکوک اور کام کی پیچیدگی، کام کا بورنگ ہونا غیر دلچسپی یا کام نہ کرنے کی خواہش وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام عوامل کے علاوہ، شخص کے طرز عمل کے مسائل جیسے کہ ضبط نفس کی کمی اور وقت کے انتظام کی مہارت کی کمی بھی تاخیر کے لیے ذمہ دار ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ آج کل لوگوں میں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا یا ریلز وغیرہ دیکھنے میں بہت زیادہ وقت ضائع کرنے کی وجہ سے تاخیر کا مسئلہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنا بعض اوقات انسان کو عادی بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوگ جان کر اور بجھانے کے باوجود ان سے دور نہیں رہ پاتے اور ان کی وجہ سے وہ اپنے اہم کاموں میں بھی تاخیر کرنے لگتے ہیں۔

  • زندگی پر تاخیر کے اثرات

وہ کہتی ہیں کہ تاخیر عام طور پر لوگوں میں تناؤ اور اضطراب کا سبب بن سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق بہت سے دوسرے، رویے، سماجی، خاندانی اور مالی مسائل بھی ہیں۔ اس کا اثر ان کی شخصیت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا اور پہچاننا بہت ضروری ہے کہ یہ رویہ ایک عادت بن چکا ہے اور اس سے بروقت نمٹنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

تاخیر سے انسان کی صحت اور زندگی پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

ہر کام کو ملتوی کرنے کی عادت انسان کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نہ صرف انسان کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتا ہے بلکہ اس کے کام کے معیار کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس شخص کی ساکھ اور امیج بھی خراب ہو سکتی ہے۔

اگر کوئی شخص اپنے اہم کاموں کو ملتوی کرتا رہے تو ایسا نہیں ہے کہ وہ کام اس کے دماغ سے نکل جائیں۔ بلکہ ان کی سوچ اور سوچ کہ کام تو کرنا ہے اور اس کی ڈیڈ لائن ہمیشہ ان کے ذہن میں گھومتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان پر ذہنی دباؤ رہتا ہے۔ جس سے وہ ذہنی طور پر بھی تھک جاتا ہے۔ ایسے میں وقت پر کام نہ کرنے سے بے چینی، گھبراہٹ، تناؤ اور بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ لمبے عرصے تک تاخیر ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ماؤتھ واش استعمال کرتے ہیں تو جائیں الرٹ، ایک سے زیادہ بیماریوں کا ہو سکتا ہے خطرہ

اگر کام وقت پر مکمل نہ ہو تو کام میں پریشانیاں، خود پرستی اور لوگوں کے غصے والے رویے سے انسان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے اور اس کی خود اعتمادی بھی کم ہو جاتی ہے۔ جو بعض اوقات ان میں جرم، شک اور مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔

تاخیر ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات کو بھی متاثر کرتی ہے۔وقت پر کام مکمل نہ کرنے سے ساتھیوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ اور تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔

لوگ ہر کام کو ملتوی کرنے کی عادت کی وجہ سے بہت سے مواقع کھو دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ وقت پر کام نہیں کرتے ہیں تو انہیں نئے پراجیکٹس، ترقیوں اور دیگر اہم مواقع سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے کیریئر اور ذاتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔

تاخیر کی وجہ سے انسان میں تناؤ اور اضطراب بڑھ جاتا ہے اور یہ ان کی نیند کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی حالت میں جسمانی سستی بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں انسان میں ہائی بلڈ پریشر اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

  • تاخیر سے کیسے بچیں

ڈاکٹر رینا دتہ بتاتی ہیں کہ وقت کے نظم و ضبط، خود نظم و ضبط اور درست ترجیحات طے کر کے تاخیر کے رجحان سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ باتوں کو ذہن میں رکھنا اور چھوٹی چھوٹی عادات کو اپنانا بھی تاخیر اور اس کے اثرات سے بچنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

  • کاموں کے حوالے سے ترجیح کا فیصلہ کریں، جیسے کہ کون سا کام زیادہ اہم ہے اور کون سا کم، اور اس کے مطابق کام کرنے کی حکمت عملی بنائیں۔
  • بڑے کاموں کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے مکمل کریں۔ ایسی صورت میں انہیں مکمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
  • ہر کام کے لیے ایک مقررہ وقت مقرر کریں۔
  • ایسے خیالات، فتنوں اور خلفشار سے بچنے کی کوشش کریں جو آپ کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
  • اپنے آپ کو متحرک کرنے کے لیے چھوٹے مقاصد حاصل کریں۔
  • کام کرتے وقت فون سے فاصلہ رکھیں بالخصوص سوشل میڈیا۔
Last Updated : Jun 6, 2024, 12:19 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.