ممبئی: غزل گلوکاری کو ایک نئی جہت دینے والے پنکج اداس کا آج انتقال ہوگیا، ان کی عمر 72 برس تھی۔ پنکج اداس 17 مئی 1951 کو راجکوٹ، گجرات کے قریب جیٹ پور میں ایک زمیندار گجراتی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ گھر میں موسیقی کے ماحول کی وجہ سے پنکج اداس بھی موسیقی میں دلچسپی لینے لگے۔ پنکج اداس نے محض سات سال کی عمر میں گانا شروع کیا۔ ان کے بڑے بھائی منہر اداس نے ان کے شوق کو پہچانا اور انہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔
منہر اداس اکثر موسیقی سے متعلق پروگراموں میں حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے اپنے ساتھ پنکج اداس کو بھی شامل کرلیا۔ ایک بار پنکج کو ایک کنسرٹ میں حصہ لینے کا موقع ملا جہاں انہوں نے گانا 'اے میرے وطن کے لوگوں ذرا آنکھ میں بھر لو پانی' گایا، اس گانے کو سن کر سامعین جذباتی ہو گئے۔ ان میں سے ایک نے خوش ہو کر پنکج اداس کو 51 روپے دئیے۔ اسی دوران پنکج اداس نے راجکوٹ کی سنگیت ناٹیہ اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی اور طبلہ بجانا سیکھنا شروع کیا۔
کچھ برسوں کے بعد پنکج اداس کا خاندان بہتر زندگی کی تلاش میں ممبئی آگیا۔ پنکج اداس نے اپنی گریجویشن مشہور سینٹ زیویئر کالج ممبئی سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے پوسٹ گریجویشن کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا لیکن بعد میں ان کی دلچسپی موسیقی کی طرف بڑھ گئی اور انہوں نے استاد نورنگ سے موسیقی کی تعلیم لینا شروع کی۔ پنکج اداس کے سینما کیریئر کا آغاز 1972 میں ریلیز ہونے والی فلم (کامنا) سے ہوا لیکن کمزور اسکرپٹ اور ہدایت کاری کی وجہ سے فلم ٹکٹ کھڑکی پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔
اس کے بعد پنکج اداس غزل گلوکار بننے کے مقصد سے اردو کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ سال 1976 میں پنکج اداس کو کناڈا جانے کا موقع ملا اور وہ ٹورنٹو میں ایک دوست کے ساتھ رہنے لگے۔ ان دنوں پنکج اداس کو اپنے دوست کی سالگرہ کی تقریب میں گانے کا موقع ملا۔ اسی تقریب میں ایک صاحب بھی موجود تھے جو ٹورنٹو ریڈیو میں ہندی پروگرام پیش کیا کرتے تھے۔ انہوں نے پنکج اداس کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انہیں ٹورنٹو ریڈیو اور دوردرشن میں گانے کا موقع دیا۔ ٹورنٹو ریڈیو اور دوردرشن میں تقریباً دس مہینے تک گانے کے بعد پنکج اداس کا من اس کام سے اچاٹ ہوگیا۔
اسی دوران ان کی ملاقات کیسٹ کمپنی کے مالک میر چندانی سے ہوئی اور انہیں اپنے نئے البم آہٹ میں پلے بیک گانے کا موقع دیا۔ یہ البم سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ سال 1986 میں ریلیز ہونے والی فلم نام پنکج اداس کے سنیما کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔ یوں تو اس فلم کے تقریباً تمام گانے سپرہٹ ثابت ہوئے لیکن پنکج اداس کی مخملی آواز میں گانا 'چھٹی آئی ہے وطن سے چٹھی آئی ہے' آج بھی سننے والوں کی آنکھیں نم کردیتا ہے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد پنکج اداس کو کئی فلموں میں پلے بیک گانے کا موقع ملا۔
ان فلموں میں گنگا جمنا سرسوتی، بہار آنے تک، تھانیدار، ساجن، دل آشنا ہے، پھر تیری کہانی یاد آئی، یہ دل لگی، موہرا، میں کھلاڑی تو اناڑی، منجدھار، گھات اور یہ ہے جلوہ شامل ہیں۔ پنکج اداس کے گائے گیتوں کی حساسیت ان کی ذاتی زندگی میں بھی نظر آتی تھی۔ وہ ایک سادہ دل حساس انسان بھی تھے جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک واقعہ ہے جو دوسروں کے تئیں ہمدردی اور حساسیت کے اس احساس کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک بار ممبئی کے ناناوتی اسپتال سے ایک ڈاکٹر نے پنکج اداس کو فون کیا کہ ایک شخص کا گلے کے کینسر کا آپریشن ہوا ہے اور وہ ان سے ملنا چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی پنکج اداس فوری طور پر اس شخص سے ملنے اسپتال گئے اور نہ صرف اسے گانا سنایا بلکہ اپنے گائے ہوئے گانوں کی کیسٹ بھی دی۔ بعد میں جب پنکج اداس کو اس بات کا علم ہوا کہ اس کے گلے کا آپریشن کامیاب رہا اور اس کی بیماری آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہی ہے تو پنکج اداس بہت خوش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں؛ غزل کے استاد پنکج اداس کا 72 برس کی عمر میں انتقال
پنکج اداس کو اپنے کیریئر میں کئی اعزازات بھی ملے۔ ان میں بہترین غزل گلوکار، کے ایل سہگل ایوارڈ، ریڈیو لوٹس ایوارڈ، اندرا گاندھی پریہ درشنی ایوارڈ، دادا بھائی نوروجی ملینیم ایوارڈ اور آرٹسٹ ایوارڈ جیسے کئی اعزازات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ گلوکاری کے میدان میں ان کی نمایاں خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں 2006 میں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پنکج اداس کے البموں کے لیے پلے بیک سنگنگ کیا، جن میں نشا، حسرت، مہک، گھونگھٹ، نشا 2، افسانہ، آفرین، نشیلہ، ہمسفر، خوشبو اور ٹوگیدر نمایاں ہیں۔ (یو این آئی)