اورنگ آباد: مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد شہر تاریخی و جغرافیائی لحاظ سے کافی شہرت کا حامل ہے، لیکن اس شہر میں شروع سے ہی پانی کی قلت کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے، اس وقت ملک عنبر نے جب اس شہر کو بسایا تھا تب یہاں آنے والے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا تھا۔ جس کے حل کے لیے ملک عنبر نے کئی بہتر انتظامات کیے لیکن اسی دور میں ایک اور بزرگ شخصیت نے عوام کے لیے پینے کے پانی کا بہتر نظم کیا تھا۔
اورنگ آباد کے معروف تاریخ داں خالد احمد نے نہر پن چکی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سترہویں صدی میں حضرت بابا شاہ مسافرؒ نے شہر سے تھوڑی سے دوری پر ایک بڑ کے درخت کے نیچے قیام کیا اور یہیں سکونت اختیار کرلی اور یہاں اپنی خانقاہ بنائی۔ اسی کے کچھ عرصے بعد انھوں نے نہر پن چکی کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا۔ اس زمانے میں جو صاف پانی کے بڑے بڑے نالے بہتے تھے اسی پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے بزرگ نے آدھے کلو میٹر کی دوری پر دو کنویں کھدوا کر اس میں پانی جمع کیا، اور پھر ایک نہر کے ذریعے پانی کو شہر میں لایا گیا۔
ان دونوں کنویں سے نکالی گئی لائنیں شہر کے حمایت باغ علاقے میں واقع کنویں میں مل جایا کرتی تھیں، اور پھر یہاں سے ایک واحد نہر نکلتی تھی جو شہر تک جاتی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ نہر سرنگ نما تھی جو زیر زمین کئی علاقوں سے ہوکر گزرتی تھی، اور بیگم پورہ علاقے میں یہ نہر ختم ہوجاتی تھی۔ اس نہر میں اگر ضرورت سے زیادہ پانی بھرجاتا تب اس کے لیے مٹی کے پائپ کے ذریعے اوور فلو کا بھی نظم کیا گیا تھا، اور یہ نظارہ آج کے دور میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ابھی بھی اس اوور فلو پائپ سے روزانہ لاکھوں لیٹر پانی ضائع ہوتا رہتا ہے، اور کچھ علاقوں میں لوگ نہر سے آج بھی پانی بھرتے ہیں۔
اس وقت میں تین الگ الگ علاقوں میں منبع بنائے گئے تھے، جس سے ہوکر پانی نہر پن چکی تک پہنچتا تھا جو چادر کی شکل میں یہاں گرتا اور بقیہ پانی سے چکی چلائی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے اس کا نام نہر پن چکی رکھا گیا۔پن چکی نہر ایسی واحد نہر ہے جسے کسی بزرگ نے تعمیر کیا ہے اس دور میں اس پن چکی کا مقصد عوام کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ پن چکی چلانا بھی تھا اور اسی کے تحت یہاں صبح و شام لنگر کا اہتمام کیا جاتا تھا۔