ETV Bharat / bharat

پارلیمانی انتخابات کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ واقعات میں اچانک اضافہ کیوں؟ - Mob violence and communal clashes - MOB VIOLENCE AND COMMUNAL CLASHES

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد سے ملک بھر میں مسلمانوں کی آٹھ لنچنگ، چھ ہجومی تشدد اور تین گھروں کو مسمار کرنے کے واقعات پیش آئے۔ اس خبر میں ان تمام واقعات اور ان کے اسباب و عوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

Mob violence and communal clashes
لوک سبھا انتخابات کے بعد ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ تصادم میں اضافہ، آخر کیوں؟ (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 6, 2024, 10:17 AM IST

حیدرآباد: ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس ( اے پی سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، چار جون کو انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سے ملک بھر میں مسلم مخالف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ دو جولائی کو جاری ہوئی اس رپورٹ میں لنچنگ، فرقہ وارانہ تشدد اور ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے تفصیلی واقعات درج کیے گیے ہیں۔

غور طلب ہے کہ اے پی سی آر ایک ایڈوکیسی گروپ ہے جو وکلاء، صحافیوں، محققین، اور پیرا لیگل رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ بھارت میں شہری اور انسانی حقوق کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔

  • اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور نفرت انگیز واقعات

اے پی سی آر رپورٹ میں آٹھ لنچنگ، چھ ہجومی تشدد، اور تین مسماری کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انتخابی نتائج کے بعد سے اب تک پیش آئے۔ گجرات میں 22 جون کو ایک 23 سالہ مسلم شخص، جس کی شناخت سلمان ووہرا کے طور پر کی گئی، جس پر 'انتہا پسندی' کا الزام لگاتے ہوئے ایک گروہ نے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقتول چکھوڈرا میں کرکٹ میچ دیکھنے گیا تھا۔

وہیں چھتیس گڑھ کے رائے پور میں سات جون کو انتہا پسند ہجوم نے تین مسلمانوں پر وحشیانہ حملہ کر کے قتل کر دیا۔ مقتولین کی شناخت صدام قریشی اور اس کے کزن چاند میا خان کے طور پر کی گئی۔ دونوں ضلع سہارنپور کے رہنے والے ہیں۔ جب کہ تیسرے مقتول گڈو خان ​​اترپردیش کے شاملی ضلع کے رہنے والے ہیں۔ یہ تینوں افراد مویشی لے جا رہے تھے جہاں رائے پور میں انتہا پسند ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ میں دو کی موقعے پر ہی موت ہو گئی، جب کہ ایک تیسرا شخص کوما میں چلا گیا تھا جس نے دس دن بعد دم توڑ دیا۔

اس کے علاوہ علی گڑھ میں 18 جون کو اورنگزیب عرف فرید کے نام کے ایک 35 سالہ مسلم شخص کو ایک ہجوم نے بے دردی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا، جس سے مغربی اترپردیش کے اس حساس شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ لنچنگ کے 10 دن بعد پولیس نے مقتول پر ہی ڈکیتی کا مقدمہ درج کر دیا۔ جب کہ ہجومی تشدد کی کوئی جانچ نہیں کی گئی اور ملزمین آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔

اے پی سی آر رپورٹ میں کولکاتا میں لنچنگ کے دو الگ الگ واقعات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، جس میں ارشاد عالم نام کے ایک شخص کو باندھ کر مارا پیٹا گیا۔ اسی بیچ اکثریتی برادری کے ایک شخص پراسین منڈل کو بھی سالٹ لیک کے علاقے میں ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔

  • فرقہ وارانہ تصادم

اے پی سی آر کی رپورٹ میں ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے فرقہ وارانہ تصادم کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے، خاص طور پر 17 جون کو عید الاضحی کے موقعے پر ہوئے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق تلنگانہ کے میدک میں 15 جون کو ایک مدرسے پر ہوئے ہجومی حملے میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ منہاج العلوم مدرسہ کی انتظامیہ نے عید الاضحی پر قربانی کے لیے مویشی خریدے تھے۔ قربانی کے جانور لائے جانے کے بعد انتہا پسند تنظیموں کے مقامی ارکان نے مدرسہ کے قریب ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

اس کے علاوہ اڑیشہ کے بالاسور اور کھوردھا میں ریاستی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ جھگڑوں کے بعد ایک ہفتے سے زیادہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا، جب کہ ایک انتہا پسند ہجوم اس علاقے میں جانوروں کی قربانی کی مخالفت کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا، ان لوگوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔

وہیں ہماچل پردیش کے ناہن میں 19 جون کو ایک مسلمان شخص نے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر قربانی کے جانوروں کی تصویر شیئر کی، جس کو لے کر ایک انتہا پسند گروپ نے اس شخص کی ٹیکسٹائل دکان میں توڑ پھوڑ کی اور دکان لوٹ لی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئے ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں انتہا پسندوں کو دکان کھولتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ لوگ ہنستے ہوئے دکان سے کپڑے باہر پھینک رہے تھے۔

22 جون کو جودھ پور کے جلوری گیٹ میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں ہوئے پتھراؤ میں کم از کم 16 لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب محلے کے مکینوں نے عیدگاہ کے پچھلے حصے میں گیٹ کی تعمیر کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ اس سے اس علاقے میں مسلمانوں کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوگا۔

  • مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا

اے پی سی آر رپورٹ کے مطابق منڈلا ضلع میں مدھیہ پردیش کی اتھارٹی نے گائے کے گوشت کے شک میں کم از کم 11 مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ بعد ازاں پولیس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مسماری کو جواز بنایا کہ مکانات سرکاری زمین پر بنائے گئے تھے۔

علاوہ ازیں 14 جون کو مدھیہ پردیش حکام نے چار مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ حکام نے ان پر الزام لگایا کہ رتلام ضلع کے جوڑا کے ایک مندر میں انہوں نے گائے کی باقیات پھینکی تھیں۔ ایم پی ہائی کورٹ نے دوپہر تقریباً 2:30 بجے حکم امتناعی جاری کیا، لیکن اس سے قبل مکانات 12:30 سے ​​1:30 بجے کے درمیان منہدم کر دیے گیے تھے۔

وہیں اترپردیش کی مراد آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے مسلم خاندانوں سے تعلق رکھنے والے چھ مکانات کو مسمار کر دیا، اس خاندان کے ایک فرد پر ہندو خاتون کو اغوا کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

  • مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں

اے پی سی آر رپورٹ کی ایک سیریز میں اتر پردیش پولیس نے مویشیوں کی اسمگلنگ یا گائے کے گوشت کی فروخت کے الزام میں مسلمانوں کی جائیداد ضبط کر لی۔ ایک تازہ ترین معاملے میں پیلی بھیت ضلع میں یوپی اتھارٹی نے گائے کا گوشت فروخت کرنے کے الزام میں ایک مسلمان شخص کے گھر اور 15,89,000 روپے کی دیگر جائیداد ضبط کر لی۔

پیلی بھیت ضلع میں ہی ایک اور مسلمان پر مویشیوں کی اسمگلنگ کا الزام لگاتے ہوئے حکام نے اس کی 1,00,00,000 روپے سے زائد کی جائیداد ضبط کر لی۔ اسی طرح یوپی کے گونڈا ضلع میں پولیس نے مویشیوں کے ذبیحہ اور تجارت کے الزام میں پانچ مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کر لیں۔

یہ بھی پڑھیں:

مغربی بنگال میں 24 گھنٹوں کے دوران ہجومی تشدد کا دوسرا واقعہ

جھاڑ گرام اور تاریکشور میں دو افراد ہجومی تشدد کے شکار

موبائل چوری کے شبہ میں ایک شخص کا پیٹ پیٹ کر قتل

الیکشن ختم ہوتے ہی ماب لنچنگ شروع، سہارنپور کے تین نوجوانوں کو پیٹ کر ندی میں پھینکا

حیدرآباد: ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس ( اے پی سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، چار جون کو انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سے ملک بھر میں مسلم مخالف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ دو جولائی کو جاری ہوئی اس رپورٹ میں لنچنگ، فرقہ وارانہ تشدد اور ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے تفصیلی واقعات درج کیے گیے ہیں۔

غور طلب ہے کہ اے پی سی آر ایک ایڈوکیسی گروپ ہے جو وکلاء، صحافیوں، محققین، اور پیرا لیگل رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ بھارت میں شہری اور انسانی حقوق کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔

  • اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور نفرت انگیز واقعات

اے پی سی آر رپورٹ میں آٹھ لنچنگ، چھ ہجومی تشدد، اور تین مسماری کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انتخابی نتائج کے بعد سے اب تک پیش آئے۔ گجرات میں 22 جون کو ایک 23 سالہ مسلم شخص، جس کی شناخت سلمان ووہرا کے طور پر کی گئی، جس پر 'انتہا پسندی' کا الزام لگاتے ہوئے ایک گروہ نے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقتول چکھوڈرا میں کرکٹ میچ دیکھنے گیا تھا۔

وہیں چھتیس گڑھ کے رائے پور میں سات جون کو انتہا پسند ہجوم نے تین مسلمانوں پر وحشیانہ حملہ کر کے قتل کر دیا۔ مقتولین کی شناخت صدام قریشی اور اس کے کزن چاند میا خان کے طور پر کی گئی۔ دونوں ضلع سہارنپور کے رہنے والے ہیں۔ جب کہ تیسرے مقتول گڈو خان ​​اترپردیش کے شاملی ضلع کے رہنے والے ہیں۔ یہ تینوں افراد مویشی لے جا رہے تھے جہاں رائے پور میں انتہا پسند ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ میں دو کی موقعے پر ہی موت ہو گئی، جب کہ ایک تیسرا شخص کوما میں چلا گیا تھا جس نے دس دن بعد دم توڑ دیا۔

اس کے علاوہ علی گڑھ میں 18 جون کو اورنگزیب عرف فرید کے نام کے ایک 35 سالہ مسلم شخص کو ایک ہجوم نے بے دردی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا، جس سے مغربی اترپردیش کے اس حساس شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ لنچنگ کے 10 دن بعد پولیس نے مقتول پر ہی ڈکیتی کا مقدمہ درج کر دیا۔ جب کہ ہجومی تشدد کی کوئی جانچ نہیں کی گئی اور ملزمین آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔

اے پی سی آر رپورٹ میں کولکاتا میں لنچنگ کے دو الگ الگ واقعات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، جس میں ارشاد عالم نام کے ایک شخص کو باندھ کر مارا پیٹا گیا۔ اسی بیچ اکثریتی برادری کے ایک شخص پراسین منڈل کو بھی سالٹ لیک کے علاقے میں ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔

  • فرقہ وارانہ تصادم

اے پی سی آر کی رپورٹ میں ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے فرقہ وارانہ تصادم کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے، خاص طور پر 17 جون کو عید الاضحی کے موقعے پر ہوئے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق تلنگانہ کے میدک میں 15 جون کو ایک مدرسے پر ہوئے ہجومی حملے میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ منہاج العلوم مدرسہ کی انتظامیہ نے عید الاضحی پر قربانی کے لیے مویشی خریدے تھے۔ قربانی کے جانور لائے جانے کے بعد انتہا پسند تنظیموں کے مقامی ارکان نے مدرسہ کے قریب ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

اس کے علاوہ اڑیشہ کے بالاسور اور کھوردھا میں ریاستی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ جھگڑوں کے بعد ایک ہفتے سے زیادہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا، جب کہ ایک انتہا پسند ہجوم اس علاقے میں جانوروں کی قربانی کی مخالفت کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا، ان لوگوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔

وہیں ہماچل پردیش کے ناہن میں 19 جون کو ایک مسلمان شخص نے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر قربانی کے جانوروں کی تصویر شیئر کی، جس کو لے کر ایک انتہا پسند گروپ نے اس شخص کی ٹیکسٹائل دکان میں توڑ پھوڑ کی اور دکان لوٹ لی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئے ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں انتہا پسندوں کو دکان کھولتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ لوگ ہنستے ہوئے دکان سے کپڑے باہر پھینک رہے تھے۔

22 جون کو جودھ پور کے جلوری گیٹ میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں ہوئے پتھراؤ میں کم از کم 16 لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب محلے کے مکینوں نے عیدگاہ کے پچھلے حصے میں گیٹ کی تعمیر کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ اس سے اس علاقے میں مسلمانوں کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوگا۔

  • مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا

اے پی سی آر رپورٹ کے مطابق منڈلا ضلع میں مدھیہ پردیش کی اتھارٹی نے گائے کے گوشت کے شک میں کم از کم 11 مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ بعد ازاں پولیس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مسماری کو جواز بنایا کہ مکانات سرکاری زمین پر بنائے گئے تھے۔

علاوہ ازیں 14 جون کو مدھیہ پردیش حکام نے چار مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ حکام نے ان پر الزام لگایا کہ رتلام ضلع کے جوڑا کے ایک مندر میں انہوں نے گائے کی باقیات پھینکی تھیں۔ ایم پی ہائی کورٹ نے دوپہر تقریباً 2:30 بجے حکم امتناعی جاری کیا، لیکن اس سے قبل مکانات 12:30 سے ​​1:30 بجے کے درمیان منہدم کر دیے گیے تھے۔

وہیں اترپردیش کی مراد آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے مسلم خاندانوں سے تعلق رکھنے والے چھ مکانات کو مسمار کر دیا، اس خاندان کے ایک فرد پر ہندو خاتون کو اغوا کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

  • مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں

اے پی سی آر رپورٹ کی ایک سیریز میں اتر پردیش پولیس نے مویشیوں کی اسمگلنگ یا گائے کے گوشت کی فروخت کے الزام میں مسلمانوں کی جائیداد ضبط کر لی۔ ایک تازہ ترین معاملے میں پیلی بھیت ضلع میں یوپی اتھارٹی نے گائے کا گوشت فروخت کرنے کے الزام میں ایک مسلمان شخص کے گھر اور 15,89,000 روپے کی دیگر جائیداد ضبط کر لی۔

پیلی بھیت ضلع میں ہی ایک اور مسلمان پر مویشیوں کی اسمگلنگ کا الزام لگاتے ہوئے حکام نے اس کی 1,00,00,000 روپے سے زائد کی جائیداد ضبط کر لی۔ اسی طرح یوپی کے گونڈا ضلع میں پولیس نے مویشیوں کے ذبیحہ اور تجارت کے الزام میں پانچ مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کر لیں۔

یہ بھی پڑھیں:

مغربی بنگال میں 24 گھنٹوں کے دوران ہجومی تشدد کا دوسرا واقعہ

جھاڑ گرام اور تاریکشور میں دو افراد ہجومی تشدد کے شکار

موبائل چوری کے شبہ میں ایک شخص کا پیٹ پیٹ کر قتل

الیکشن ختم ہوتے ہی ماب لنچنگ شروع، سہارنپور کے تین نوجوانوں کو پیٹ کر ندی میں پھینکا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.