ETV Bharat / bharat

کوئی ایسا قانون جو شریعت کے خلاف ہو ہمیں منظور نہیں: مولانا ارشد مدنی

We do not accept any law that is against Sharia مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتاہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے-

کوئی ایسا قانون جو شریعت کے خلاف ہو ہمیں منظور نہیں: مولانا ارشد مدنی
کوئی ایسا قانون جو شریعت کے خلاف ہو ہمیں منظور نہیں: مولانا ارشد مدنی
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 6, 2024, 6:38 PM IST

نئی دہلی: اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈکو نافذ کرنے کے ریاستی سرکارکے فیصلہ پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے اپنے شدیدردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو۔ آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ مسلمان ہر چیزسے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن ا پنی شریعت اوردھرم سے ہرگز ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں آج یکساں سول کوڈکاجوبل منظورہواہے اس میں درج فہرست قبائل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ 366کے باب 25کی ذیلی دفعہ 342کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے اوریہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔


مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتاہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھاجائے تویکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتاہے، اگر یہ یکساں سول کوڈہے توپھر شہریوں کے درمیان یہ امتیاز کیوں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری لیگل ٹیم اس بل کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ کسی بھی مذہب کاماننے والااپنے مذہبی امورمیں کسی طرح کی بے جامداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے تکیثری ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے اعتقادات اورمذہبی ریت اور رواج پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہیں وہاں آج یکساں سول کوڈکا نفاذآئین میں شہریوں کودیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کاہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اوردستورمیں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کااپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لئے یکساں سول کوڈمسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہےاورملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے، یکساں سول کوڈکے نفاذکے لئے، دفعہ 44 کو ثبوت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ یکساں سول کوڈکی بات توآئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ 44رہنمااصول میں نہیں ہے، بلکہ ایک مشورہ ہے، لیکن آئین کی ہی دفعہ 25، 26 اور 29 کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک ایک قانون ہوگا اور یہ کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہو سکتا۔


انہوں نے کہا کہ یہ عجیب وغریب بات ہے، ہمارے یہاں کی IPC،CRPC کی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں، ریاستوں میں اس کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے، ملک میں گؤکشی کا قانون بھی ایک نہیں ہے جو قانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے ملک میں ریزرویشن کے تعلق سے سپریم کورٹ نے اس کی حد 50 فیصد مقرر کی ہے لیکن مختلف صوبوں میں 50 فیصد سے زیادہ ریز رویشن دیا گیا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ جب پورے ملک میں سول لاء ایک نہیں ہے تو پھر ملک بھر میں ایک فیملی لاء لاگو کرنے پر زور کیوں؟ ہمارا ملک کثیر تہذیبی اور کثیر مذہبی ملک ہے، یہی اس کی خصوصیت بھی ہے، اس لئے یہاں ایک قانون نہیں چل سکتا، جو لوگ دفعہ 44 کی آنکھ بند کر کے وکالت کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی دفعہ کے تحت یہ بات بھی کہی گئی اوریہ بھی مشورہ دیا ہے کہ پورے ملک میں شراب پر پابندی لگائی جائے، امیر غریب کے درمیان کی خلیج کو ختم کیا جائے،سرکار یہ کام کیوں نہیں کرتی؟ کیا یہ ضروری نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جن باتوں پر کسی کو اختلاف نہیں اور جو سب کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے سرکار اسے کرنے سے گریزکیوں کرتی ہے؟ دوسری طرف جو چیز یں اختلافی ہیں اسے ایشو بنا کر آئین کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جو فیملی لاء ہیں وہ انسانوں کا بنایا قانون نہیں ہے، وہ قرآن مجید وحدیث سے ماخوذ ہیں، اس پر فقہی مباحث تو ہو سکتے ہیں، لیکن بنیادی باتوں پر ہمارے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ یکساں سول کوڈکا نفاذ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اورمذہبی مسائل کھڑے کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف اورانتشارمیں مبتلارکھنا چاہتی ہے لیکن مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے خوف اورانتشارمیں مبتلانہیں ہوناچاہئے، ملک میں جب تک انصاف پسند لوگ باقی ہیں ان کو ساتھ لیکر جمعیۃعلماء ہند ان طاقتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی، جو ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے نہ صرف ایک بڑاخطرہ ہے بلکہ سماج کو تعصب کی بنیادپر تقسیم کرنے کے درپے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس ملک کے خمیرمیں ہزاروں برس سے نفرت نہیں محبت شامل ہے کچھ عرصہ کے لئے نفرت کو کامیاب ضرورکہا جاسکتاہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخری اورحتمی فتح محبت کی ہونی ہے۔

یو این آئی

نئی دہلی: اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈکو نافذ کرنے کے ریاستی سرکارکے فیصلہ پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے اپنے شدیدردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو۔ آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ مسلمان ہر چیزسے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن ا پنی شریعت اوردھرم سے ہرگز ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں آج یکساں سول کوڈکاجوبل منظورہواہے اس میں درج فہرست قبائل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ 366کے باب 25کی ذیلی دفعہ 342کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے اوریہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔


مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتاہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھاجائے تویکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتاہے، اگر یہ یکساں سول کوڈہے توپھر شہریوں کے درمیان یہ امتیاز کیوں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری لیگل ٹیم اس بل کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ کسی بھی مذہب کاماننے والااپنے مذہبی امورمیں کسی طرح کی بے جامداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے تکیثری ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے اعتقادات اورمذہبی ریت اور رواج پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہیں وہاں آج یکساں سول کوڈکا نفاذآئین میں شہریوں کودیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کاہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اوردستورمیں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کااپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لئے یکساں سول کوڈمسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہےاورملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے، یکساں سول کوڈکے نفاذکے لئے، دفعہ 44 کو ثبوت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ یکساں سول کوڈکی بات توآئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ 44رہنمااصول میں نہیں ہے، بلکہ ایک مشورہ ہے، لیکن آئین کی ہی دفعہ 25، 26 اور 29 کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک ایک قانون ہوگا اور یہ کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہو سکتا۔


انہوں نے کہا کہ یہ عجیب وغریب بات ہے، ہمارے یہاں کی IPC،CRPC کی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں، ریاستوں میں اس کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے، ملک میں گؤکشی کا قانون بھی ایک نہیں ہے جو قانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے ملک میں ریزرویشن کے تعلق سے سپریم کورٹ نے اس کی حد 50 فیصد مقرر کی ہے لیکن مختلف صوبوں میں 50 فیصد سے زیادہ ریز رویشن دیا گیا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ جب پورے ملک میں سول لاء ایک نہیں ہے تو پھر ملک بھر میں ایک فیملی لاء لاگو کرنے پر زور کیوں؟ ہمارا ملک کثیر تہذیبی اور کثیر مذہبی ملک ہے، یہی اس کی خصوصیت بھی ہے، اس لئے یہاں ایک قانون نہیں چل سکتا، جو لوگ دفعہ 44 کی آنکھ بند کر کے وکالت کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی دفعہ کے تحت یہ بات بھی کہی گئی اوریہ بھی مشورہ دیا ہے کہ پورے ملک میں شراب پر پابندی لگائی جائے، امیر غریب کے درمیان کی خلیج کو ختم کیا جائے،سرکار یہ کام کیوں نہیں کرتی؟ کیا یہ ضروری نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جن باتوں پر کسی کو اختلاف نہیں اور جو سب کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے سرکار اسے کرنے سے گریزکیوں کرتی ہے؟ دوسری طرف جو چیز یں اختلافی ہیں اسے ایشو بنا کر آئین کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جو فیملی لاء ہیں وہ انسانوں کا بنایا قانون نہیں ہے، وہ قرآن مجید وحدیث سے ماخوذ ہیں، اس پر فقہی مباحث تو ہو سکتے ہیں، لیکن بنیادی باتوں پر ہمارے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ یکساں سول کوڈکا نفاذ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اورمذہبی مسائل کھڑے کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف اورانتشارمیں مبتلارکھنا چاہتی ہے لیکن مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے خوف اورانتشارمیں مبتلانہیں ہوناچاہئے، ملک میں جب تک انصاف پسند لوگ باقی ہیں ان کو ساتھ لیکر جمعیۃعلماء ہند ان طاقتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی، جو ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے نہ صرف ایک بڑاخطرہ ہے بلکہ سماج کو تعصب کی بنیادپر تقسیم کرنے کے درپے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس ملک کے خمیرمیں ہزاروں برس سے نفرت نہیں محبت شامل ہے کچھ عرصہ کے لئے نفرت کو کامیاب ضرورکہا جاسکتاہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخری اورحتمی فتح محبت کی ہونی ہے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.