واشنگٹن: امریکی حکومت کے ایک کمیشن نے ہندوستان میں مذہبی آزادی کی مبینہ طور پر بگڑتی ہوئی صورت حال کو نشان زد کرتے ہوئے اسے "خاص تشویش والے ممالک'' کے زمرے ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے ایک بیان میں سینئر پالیسی تجزیہ کار سیما حسن کی تصنیف کا حوالہ دیا جس میں بھارت سے متعلق باب میں مذہبی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف پرتشدد حملوں کو اکسانے کے لیے غلط معلومات اور معلومات کو توڑنے مروڑنے اور سرکاری اہلکاروں پر نفرت انگیز تقاریر کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اپنی سالانہ رپورٹ میں کمیشن نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ مذہبی آزادی کی منظم، مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے لیے ہندوستان کو "خاص تشویش والے ممالک" کے زمرے میں ڈالے۔ واضح رہے کہ محکمہ خارجہ نے ابھی تک ان سفارشات کو قبول کرنے سے گریز کیا ہے۔
امریکی کمیشن کی یہ رپورٹ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح 2024 کے دوران ہندو تنظیموں کے گروہوں نے ہجومی تشدد میں لوگوں مارا، پیٹا اور قتل کیا گیا، مذہبی رہنماؤں کو من مانی طور پر گرفتار کیا گیا، گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا۔ یہ واقعات خاص طور پر مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔
رپورٹ نے مزید کہا کہ ہندوستان کی سابقہ منموہن سنگھ حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک نے اپنے اندرونی معاملات میں "مداخلت" کا حوالہ دیتے ہوئے اس کمیشن کے اراکین کو بھارت کا دورہ کرنے سے روکنے کے لیے ویزا دینے سے مسلسل انکار کیا۔
ہندوستان اور متعدد ہندوستانی امریکی گروپوں کا الزام رہا ہے ہے کہ یو ایس سی آئی آر ایف بھارت کو بدنام کرنے کے لئے جانبدارانہ، غیر سائنسی اور ایجنڈے پر مبنی رپورٹنگ کرتی ہے۔
وہیں کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ، یکساں سول کوڈ، متعدد ریاستوں میں تبدیلی مذہب اور گائے کے ذبیحہ کے خلاف قوانین، مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور حق رائے دہی سے محروم کرنے کے لیے ہندوستان کے قانونی ڈھانچے میں تبدیلیوں اور ان کے نفاذ کی مزید وضاحت کرتی ہے۔