نئی دہلی: جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد نے بدھ کو انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت فروری 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات کی سازش کے الزام میں درج کردہ ایک کیس میں سپریم کورٹ سے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی۔
جسٹس بیلا ایم ترویدی اور پنکج مٹھل کی بنچ کو خالد کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے بتایا کہ وہ "حالات میں تبدیلی" کی وجہ سے ضمانت کی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ سبل نے کہا کہ "میں قانونی سوال (یو اے پی اے کی دفعات کو چیلنج کرنے والے) پر بحث کرنا چاہتا ہوں لیکن حالات میں تبدیلی کی وجہ سے ضمانت کی عرضی واپس لینا چاہتا ہوں۔ ہم ٹرائل کورٹ میں اپنی قسمت آزمائیں گے"۔ تاہم سینئر وکیل نے حالات میں تبدیلی کی وضاحت نہیں کی۔
بنچ نے کپل سبل کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے خالد کی ضمانت کی عرضی واپس لینے کا حکم دیا۔ خالد نے دہلی ہائی کورٹ کے 18 اکتوبر 2022 کے حکم کو چیلنج کیا ہے جس کے ذریعے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ ہائی کورٹ نے خالد کی ضمانت کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ دوسرے شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ان کے خلاف الزامات پہلی نظر میں درست ہیں۔
مزید پڑھیں: عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت ملتوی، پھر ملی نئی تاریخ
عمر خالد، شرجیل امام، اور دیگر کئی افراد کے خلاف فروری 2020 کے فسادات کے مبینہ طور پر "ماسٹر مائنڈ" ہونے کے الزام میں انسداد دہشت گردی قانون اور تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ سنہ 2020 دہلی فسادات میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس دوران بے شمار لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ سینکڑوں افراد بے گھر ہوئے تھے۔
شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ستمبر 2020 میں دہلی پولیس کی جانب سے گرفتار شدہ عمر خالد نے اس بنیاد پر ضمانت کی درخواست کی تھی کہ اس کا نہ تو تشدد میں کوئی مجرمانہ کردار تھا اور نہ ہی اس کیس کے کسی دوسرے ملزم کے ساتھ کوئی "سازشی تعلق" تھا۔ دہلی پولیس نے ہائی کورٹ میں عمر خالد کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی جانب سے دی گئی تقریر "بہت حساس" تھی اور اس نے بابری مسجد، تین طلاق، کشمیر، مسلمانوں پر مبینہ طور پر جبر اور سی اے اے اور این آر سی جیسے متنازعہ مسائل کو اٹھایا تھا۔