حیدر آباد: وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں جاری مہم آخری روز میں داخل ہو چکی ہے۔ جمعہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر کی مساجد میں بھی وقف ترمیمی بل سے ہونے والے نقصانات سے متعلق بیداری پروگرام کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مسلمانان ہند کے علاوہ لاکھوں برادران وطن بھی بل کی مخالفت میں آگے آئے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت دیگر مسلم و ملی تنظیموں کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے کہ آخری دن بل کی مخالفت میں زیادی سے زیادہ مسلمانان ہند جے پی سی کو اپنی رائے واٹس ایپ یا ای میل کے ذریعہ فراہم کرائیں۔
12 ستمبر کو وقف بل کی مخالفت میں ایک کروڑ 92 لاکھ سے زائد درخواستیں پارلیمانی کمیٹی کو روانہ کی جا چکی تھیں۔ 13 ستمبر یعنی آج ابھی تک تین کروڑ 5 لاکھ 21 ہزار سے زائد درخواستیں وقف ترمیمی بل کا جائزہ لے رہی جے پی سی کو روانہ کی جا چکی ہیں۔
ملک بھر میں مسلم و ملی تنظیمون کی جانب سے آج جگہ جگہ اس مہم سے متعلق بیداری کے لیے بیانات و ڈیمو پروگرام منعقد کیے گئے ہیں۔ علماء کرام، دانشوروں و قانونی مایرین کو امید ہے کہ اس مہم سے متعلق ان بیداری پروگراموں کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور زیادہ سے زیادہ مسلمانان ہند اس مہم سے جڑ کر بل کی مخالفت میں ای میل و واٹس سے مخالفت میں پیغام روانہ کریں گے۔
اس ضمن میں مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء یا دیگر تنظیموں کی جانب سے جوکیوآر کوڈ جاری کیا گیا ہے اس میں محض اسکین کرکے اسے جے پی سی کو روانہ کرنا ہے۔ اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ای میل روانہ کیے جا رہے ہیں۔
مسلم تنظیموں، ملی قائدین اور علماء کرام کا موقف ہے کہ وقف ترمیمی بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت کو ایسے اختیارات مل جائیں گے جن کی مدد سے وہ ملک بھر کی وقف املاک پر قبضہ کر سکتی ہے اور وقف کے اداروں کو ناکارہ کر سکتی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا ماننا ہے کہ 'نئے بل میں کلکٹر کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں، جب کہ اصولی طور پر کلکٹر جج نہیں بن سکتا۔' بورڈ کا مزید کہنا ہے کہ 'اس وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت وقف کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی حکومتوں کو اس سے باہر کرنا چاہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- وقف بورڈ کیا ہے؟ یہ کس طرح کام کرتا ہے اور کس نے بڑھائے اس کے اختیارات؟ سب کچھ جانیے