ETV Bharat / bharat

مدھیہ پردیش: مسجد کے امام کے ساتھ مار پیٹ، علاقے میں کشیدگی

Imam of mosque thrashed in Madhya Pradesh Damoh ریاست مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں مسجد کے ایک امام کے ساتھ مبینہ طور پر مار پیٹ کرنے کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ مارپیٹ کرنے والوں کے خلاف احتجاج کے بعد مقدمہ درج کرلیا گیا۔

Imam of mosque thrashed in MP
Imam of mosque thrashed in MP
author img

By IANS

Published : Feb 6, 2024, 7:11 AM IST

بھوپال: مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں مسجد کے ایک امام کو مبینہ طور پر تشدد کا شکار بنایا گیا۔ جس کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ امام کو اس وقت مارا پیٹا گیا جب امام نے لوگوں کے ایک گروپ کو درزی کو مارنے سے روکنے کی کوشش کی۔ پولیس حکام کے مطابق علاقے میں کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب ہندو اور مسلم کمیونٹی کے لوگ آمنے سامنے آگئے، دونوں طرف سے ایک بڑی بھیڑ ایک پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوگئی۔ یہ واقعہ اتوار کو پیش آیا۔

تاہم پولیس کی جانب سے فوری کارروائی سے صورتحال کو قابو میں لایا گیا اور علاقے میں ایک ناخوشگوار واقعہ کو روک دیا گیا۔ دموہ میں ماضی میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے تھے۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ہفتہ کی رات ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر ایک مسلمان درزی کو مارا پیٹا۔ جب شرپسند مسجد کے قریب ایک درزی کی پٹائی کر رہے تھے تو اسی دوران وہاں سے گزرنے والے ایک امام نے لڑائی کو روکنے کی کوشش کی۔

درزی کی پٹائی کرنے والے نوجوانوں نے امام کو مبینہ طور پر مارا پیٹا۔ جیسے ہی امام کی پٹائی کی خبر پھیل گئی، مسلم کمیونٹی کے متعدد لوگ ایک مقامی پولیس اسٹیشن پر جمع ہوئے اور کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جب مسلم کمیونٹی کے لوگ امام کو مبینہ طور پر پیٹنے والے افراد کی گرفتاری کے لیے مطالبے پر زور دینے کے لیے احتجاج کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی، جس نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔ جسے دیکھ کر دونوں طرف کے لوگ تھانے کے باہر جمع ہو گئے۔

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار کو ہجوم کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا گیا، اور انہیں خبردار کیا گیا کہ وہ جائے وقوعہ سے چلے جائیں بصورت دیگر "پولیس صورتحال کو اپنے طریقے سے سنبھالے گی"۔ دونوں اطراف سے مشتعل ہجوم بعد میں منتشر ہو گیا۔ آخر کار درزی اور امام کو مارنے والے چار نوجوانوں پر متعلقہ الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور پولیس کی جانب سے کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی۔

مزید پڑھیں: مویشی چوری کے الزام میں دو افراد ہجومی تشدد کے شکار

وزیر اعلیٰ موہن یادو نے پیر کو پولیس سے کہا کہ وہ تشدد کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ اس کے بعد کم از کم 40 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ دموہ کے ایس پی سندیپ شرما نے کہا کہ صورتحال قابو میں ہے اور علاقے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ شرما نے مزید کہا کہ "صورتحال کے لیے بنیادی طور پر ذمہ دار چار افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں مزید تحقیقات جاری ہے"۔

آئی اے این ایس

بھوپال: مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں مسجد کے ایک امام کو مبینہ طور پر تشدد کا شکار بنایا گیا۔ جس کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ امام کو اس وقت مارا پیٹا گیا جب امام نے لوگوں کے ایک گروپ کو درزی کو مارنے سے روکنے کی کوشش کی۔ پولیس حکام کے مطابق علاقے میں کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب ہندو اور مسلم کمیونٹی کے لوگ آمنے سامنے آگئے، دونوں طرف سے ایک بڑی بھیڑ ایک پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوگئی۔ یہ واقعہ اتوار کو پیش آیا۔

تاہم پولیس کی جانب سے فوری کارروائی سے صورتحال کو قابو میں لایا گیا اور علاقے میں ایک ناخوشگوار واقعہ کو روک دیا گیا۔ دموہ میں ماضی میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے تھے۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ہفتہ کی رات ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر ایک مسلمان درزی کو مارا پیٹا۔ جب شرپسند مسجد کے قریب ایک درزی کی پٹائی کر رہے تھے تو اسی دوران وہاں سے گزرنے والے ایک امام نے لڑائی کو روکنے کی کوشش کی۔

درزی کی پٹائی کرنے والے نوجوانوں نے امام کو مبینہ طور پر مارا پیٹا۔ جیسے ہی امام کی پٹائی کی خبر پھیل گئی، مسلم کمیونٹی کے متعدد لوگ ایک مقامی پولیس اسٹیشن پر جمع ہوئے اور کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جب مسلم کمیونٹی کے لوگ امام کو مبینہ طور پر پیٹنے والے افراد کی گرفتاری کے لیے مطالبے پر زور دینے کے لیے احتجاج کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی، جس نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔ جسے دیکھ کر دونوں طرف کے لوگ تھانے کے باہر جمع ہو گئے۔

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار کو ہجوم کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا گیا، اور انہیں خبردار کیا گیا کہ وہ جائے وقوعہ سے چلے جائیں بصورت دیگر "پولیس صورتحال کو اپنے طریقے سے سنبھالے گی"۔ دونوں اطراف سے مشتعل ہجوم بعد میں منتشر ہو گیا۔ آخر کار درزی اور امام کو مارنے والے چار نوجوانوں پر متعلقہ الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور پولیس کی جانب سے کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی۔

مزید پڑھیں: مویشی چوری کے الزام میں دو افراد ہجومی تشدد کے شکار

وزیر اعلیٰ موہن یادو نے پیر کو پولیس سے کہا کہ وہ تشدد کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ اس کے بعد کم از کم 40 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ دموہ کے ایس پی سندیپ شرما نے کہا کہ صورتحال قابو میں ہے اور علاقے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ شرما نے مزید کہا کہ "صورتحال کے لیے بنیادی طور پر ذمہ دار چار افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں مزید تحقیقات جاری ہے"۔

آئی اے این ایس

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.