دھار: اندور ہائی کورٹ کی ہدایت پر دھار کی مولا کمال الدین مسجد کے آثار قدیمہ کے سروے کا کام آج ہفتہ کو دوسرے دن بھی جاری ہے۔ صبح تقریباً 8:30 بجے اے ایس آئی (آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا) کی ٹیم گاؤں کے احاطے میں داخل ہوئی۔ آج سروے ٹیم کمپلیکس کے اندر موجود نوشتہ جات اور قدیم نشانات وغیرہ کے شواہد اکٹھے کرے گی اور دوبارہ میپنگ کرے گی۔ اس دوران اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ مسجد کے اندر تعمیراتی کام کس انداز میں کیا گیا ہے اور اس کا قدیم ذکر اور حوالہ کس دور حکومت میں آیا ہے۔
- ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سروے:
غور طلب ہے کہ مولا کمال الدین مسجد تنازعہ کے بارے میں اندور ہائی کورٹ کی بنچ نے ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین کی عرضی کو قبول کرتے ہوئے 11 مارچ کو گؤ شالا کے تازہ سروے کا حکم دیا تھا۔ مولا کمال الدین مسجد کے سروے کی رپورٹ 6 ہفتے کے اندر ہائی کورٹ میں جمع کرانی ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم پر مولا کمال الدین مسجد کے سروے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے 22 مارچ سے سروے کا کام شروع کر دیا ہے۔
- سروے کے خلاف درخواست:
جمعہ سے کئے گئے سروے کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے مسلم فریق نے اس سروے کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔ لیکن اب مسلم فریق دوبارہ سپریم کورٹ جائے گا اور تمام ثبوتوں اور حکومت ہند کی طرف سے 1902 اور 1903 میں کئے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے عرضی پیش کرے گا۔ اس معاملے میں شہر قاضی کا کہنا ہے کہ پہلے سروے کی رپورٹ کے بعد حکومت ہند نے متنازع جگہ کو کمال مولانا مسجد قرار دیا تھا۔ لیکن اب اگر سروے کے بعد حقائق میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس سروے کو مشکوک کہا جائے گا۔ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ اب پورے معاملے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے گا تاکہ بار بار ہونے والے اس تنازع کو ختم کیا جا سکے۔
- مولا کمال الدین مسجد تنازعہ کی وجہ کیا ہے؟
تمام ہندو تنظیمیں مولا کمال الدین مسجد کو بھوج شالا کہتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ راجہ بھوج کے دور کی عمارت ہے اور یہ سرسوتی کا مندر ہے۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ راج ونش دور میں مسلمانوں کو یہاں کچھ وقت کے لیے نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔ وہیں دوسری طرف مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں برسوں سے نماز ادا کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: