ETV Bharat / bharat

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت: ڈاکٹر رضی الاسلام - Muslim Womens Divorce

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 13, 2024, 5:27 PM IST

جماعت اسلامی ہند شریعہ کونسل کے سکریٹری اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر رضی الاسلام نے سپریم کورٹ کی جانب سے طلاق اور نان ونفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت ہے۔

The recent decision of the Supreme Court is an interference in the Islamic Sharia: Dr Razi Ul Islam
سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت ہے: ڈاکٹر رضی الاسلام (ETV Bharat Urdu)
ڈاکٹر رضی الاسلام سے خاص بات چیت (ETV Bharat)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہو ئے کہا کہ طلاق شدہ مسلم خاتون اپنے شوہر سے گزارہ بھتہ مانگ سکتی ہے۔ اس کو لے کر مسلم علما نے سخت اعتراض ظاہر کیا ہے اور اسے شریعت میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ اسی معاملے کو لے کر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر ای ٹی وی بھارت نے مسلمانوں کی بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کے سکریٹری اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر رضی الاسلام سے خاص بات چیت کی۔ ڈاکٹر رضی الاسلام نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مطلقہ خاتون کو سابقہ شوہر سے زندگی بھر گزارہ بھتہ وصول کرنے کا فیصلہ اسلامی شریعت سے ٹکراتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مطلقہ مسلم خاتون اپنے شوہر سے نان نفقہ مانگ سکتی ہے: سپریم کورٹ


فیصلہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے خلاف
انہوں نے کہا کہ اسلامی شریعت یہ کہتی ہے کہ طلاق کے بعد عدت جو تین مہینے کی ہوتی ہے اس میں وہ شوہر سے گزارہ وصول کرنے کی حقدار ہوتی ہے لیکن عدت ختم ہونے پر شوہر سے رشتہ منقطع ہونے کے بعد شوہر کو پابند کرنا کہ ان کی زندگی بھر یا پھر دوسری شادی ہونے تک ان کے لیے گزر اوقات کا انتظام کرے اس کی اسلامی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء اپلیکیشن ایکٹ 1937 سے مسلمانوں کو آزادی ہے کہ اپنے مسلم پرسنل پر عمل کرے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر رضی الاسلام نے کہا کہ 1986 میں بھی اسی طرح کا فیصلہ شاہ بانو کیس معاملے میں سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ اس وقت حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کیا تھا جو اسلامی شریعت کے مطابق تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کے بعد سے ملک کے مختلف ہائی کورٹ اور پھر حالیہ سپریم کورٹ کا جو اب فیصلہ آیا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے خلاف ہے۔ اور یہ فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

طلاق اور نفقہ کی آڑ میں مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی جارہی ہے: سیدہ سعدیہ

ڈاکٹر رضی الاسلام نے کہا کہ ماضی میں اس طرح کے جو بھی فیصلے ہوئے ہیں اس کی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی طرف سے مخالفت کی جاتی رہی ہے اور ملک کی تمام دینی تنظیمیں اس میں شامل ہیں۔ جب بھی کوئی غیر شرعی فیصلے آتے ہیں تو ان دینی جماعتوں کی طرف سے الگ الگ بیانات آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس حالیہ سپریم کے فیصلے پر بھی ان تنظیموں اور آل انڈیا مسلم پرسنل کی طرف سے جلد بیانات آئیں گے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بدھ کے روز فیصلہ سنایا کہ مطلقہ مسلم خاتون ضابطہ فوجداری کی دفعہ 125 کے تحت اپنے شوہر سے کفالت حاصل کر سکتی ہے اور یہ فیصلہ دیا کہ مسلم خواتین (طلاق پر حقوق کا تحفظ) ایکٹ 1986 سیکولر قانون سے بالاتر ہے۔ جسٹس بی وی ناگارتھنا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے الگ الگ لیکن ایک ساتھ فیصلہ سنایا۔

درخواست گزار، ایک مسلم شخص نے تلنگانہ ہائی کورٹ کی طرف سے اپنی طلاق شدہ بیوی کو 10,000 روپے کی عبوری کفالت دینے کی ہدایت پر سوال اٹھایا تھا۔ درخواست گزار کی طرف سے دائر کی گئی اپیل میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ طلاق یافتہ مسلم خاتون سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت نان نفقہ کا مطالبہ نہیں کر سکتی، کیونکہ مسلم خواتین (طلاق پر حقوق کا تحفظ) ایکٹ 1986 اس پر لاگو نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر رضی الاسلام سے خاص بات چیت (ETV Bharat)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہو ئے کہا کہ طلاق شدہ مسلم خاتون اپنے شوہر سے گزارہ بھتہ مانگ سکتی ہے۔ اس کو لے کر مسلم علما نے سخت اعتراض ظاہر کیا ہے اور اسے شریعت میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ اسی معاملے کو لے کر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر ای ٹی وی بھارت نے مسلمانوں کی بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کے سکریٹری اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر رضی الاسلام سے خاص بات چیت کی۔ ڈاکٹر رضی الاسلام نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مطلقہ خاتون کو سابقہ شوہر سے زندگی بھر گزارہ بھتہ وصول کرنے کا فیصلہ اسلامی شریعت سے ٹکراتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مطلقہ مسلم خاتون اپنے شوہر سے نان نفقہ مانگ سکتی ہے: سپریم کورٹ


فیصلہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے خلاف
انہوں نے کہا کہ اسلامی شریعت یہ کہتی ہے کہ طلاق کے بعد عدت جو تین مہینے کی ہوتی ہے اس میں وہ شوہر سے گزارہ وصول کرنے کی حقدار ہوتی ہے لیکن عدت ختم ہونے پر شوہر سے رشتہ منقطع ہونے کے بعد شوہر کو پابند کرنا کہ ان کی زندگی بھر یا پھر دوسری شادی ہونے تک ان کے لیے گزر اوقات کا انتظام کرے اس کی اسلامی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء اپلیکیشن ایکٹ 1937 سے مسلمانوں کو آزادی ہے کہ اپنے مسلم پرسنل پر عمل کرے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر رضی الاسلام نے کہا کہ 1986 میں بھی اسی طرح کا فیصلہ شاہ بانو کیس معاملے میں سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ اس وقت حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کیا تھا جو اسلامی شریعت کے مطابق تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کے بعد سے ملک کے مختلف ہائی کورٹ اور پھر حالیہ سپریم کورٹ کا جو اب فیصلہ آیا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے خلاف ہے۔ اور یہ فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

طلاق اور نفقہ کی آڑ میں مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی جارہی ہے: سیدہ سعدیہ

ڈاکٹر رضی الاسلام نے کہا کہ ماضی میں اس طرح کے جو بھی فیصلے ہوئے ہیں اس کی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی طرف سے مخالفت کی جاتی رہی ہے اور ملک کی تمام دینی تنظیمیں اس میں شامل ہیں۔ جب بھی کوئی غیر شرعی فیصلے آتے ہیں تو ان دینی جماعتوں کی طرف سے الگ الگ بیانات آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس حالیہ سپریم کے فیصلے پر بھی ان تنظیموں اور آل انڈیا مسلم پرسنل کی طرف سے جلد بیانات آئیں گے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بدھ کے روز فیصلہ سنایا کہ مطلقہ مسلم خاتون ضابطہ فوجداری کی دفعہ 125 کے تحت اپنے شوہر سے کفالت حاصل کر سکتی ہے اور یہ فیصلہ دیا کہ مسلم خواتین (طلاق پر حقوق کا تحفظ) ایکٹ 1986 سیکولر قانون سے بالاتر ہے۔ جسٹس بی وی ناگارتھنا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے الگ الگ لیکن ایک ساتھ فیصلہ سنایا۔

درخواست گزار، ایک مسلم شخص نے تلنگانہ ہائی کورٹ کی طرف سے اپنی طلاق شدہ بیوی کو 10,000 روپے کی عبوری کفالت دینے کی ہدایت پر سوال اٹھایا تھا۔ درخواست گزار کی طرف سے دائر کی گئی اپیل میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ طلاق یافتہ مسلم خاتون سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت نان نفقہ کا مطالبہ نہیں کر سکتی، کیونکہ مسلم خواتین (طلاق پر حقوق کا تحفظ) ایکٹ 1986 اس پر لاگو نہیں ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.